Posts

Women's day 2023

Image
خواتین کا عالمی دن ہر سال 8 مارچ کو عالمی سطح پر خواتین کی کامیابیوں کو خراج تحسین پیش کرنے، انہیں درپیش چیلنجوں کو پہچاننے اور صنفی مساوات کو فروغ دینے کے لیے منایا جاتا ہے۔ یہ خواتین کی سماجی، اقتصادی، ثقافتی، اور سیاسی شراکت کو منانے اور صنفی مساوات کو بڑھانے کا دن ہے۔ خواتین معاشرے کا ایک لازمی حصہ ہیں اور اپنے ممالک اور برادریوں کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ تاہم، انہیں متعدد چیلنجوں اور امتیازی سلوک کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے، خاص طور پر مشرقی علاقوں میں۔ خواتین کی تعریف: خواتین کو بالغ خواتین انسانوں کے طور پر بیان کیا جاسکتا ہے جو حیاتیاتی طور پر مردوں سے مختلف ہیں۔ ان کی جسمانی اور جذباتی ضروریات مختلف ہیں اور پوری تاریخ میں ان کے ساتھ مختلف سلوک کیا گیا ہے۔ خواتین سے اکثر یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ روایتی صنفی کردار ادا کریں جیسے گھر کی دیکھ بھال کرنا، بچوں کی پرورش کرنا اور اپنے شوہروں کی مدد کرنا۔ تاہم، خواتین کے کردار تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں، اور اب وہ افرادی قوت اور معاشرے کے دیگر شعبوں میں زیادہ دکھائی دے رہے ہیں۔ مشرقی علاقے کی خواتین کے مسائل: بہت سے مشرقی ممالک م

horror story

Image
 جرمی میں ایک فرم ہاؤس.ہنٹر کائی_شک فرم کے نام سے مشہور ہے.یہ فرم ہاؤس گھنے جنگل کے قریب ایک ویران اور سنسان جگہ پہ موجود ہے.  1920 میں یہاں ایک گروبر نامی ایک فیلمی رہتی تھی. فیملی کا سربراہ اندریز تھا. وہ اپنی بیوی ایزیلیا. اور بیٹی وکٹوریا اور ایک ملازمہ کے ساتھ وہاں رہتا  تھا.   یہ ان کی نئی ملازمہ تھی جس نے انہیں کچھ ہی عرصہ پہلے جوائن کیا تھا.   سب جب اپنے کاموں پہ نکل جاتے تو وہ ذیادہ تر فرم ہاؤس میں اکیلی ہوتی تھی. ایک دن وہ اپنے کام میں مصروف ہوتی ہے کہ اچانک اسے آواز آنا شروع ہو جاتی ہے  آواز اس کے سامنے والی دیوار سے آتی ہے.جیسے کوئی دیوار میں کچھ گاڑ رہا ہو. وہ اٹھ کر دیوار کے قریب جاتی ہے.  یہ آواز دیوار کے اندر سے ہی آ رہی ہوتی ہے.آواز رک جاتی ہے.وہ بے یقینی سے دیوار کو دیکھتی ہے. اس کے پیچھے ٹیبل پہ رکھا گلدان اچانک سے گرتا ہے اور ریزہ ریزہ  ہو جاتا.وہ پیچھے مڑتی ہے.سیڑیوں سے قدموں کی آواز آتی ہے جیسے کوئی سیڑھیاں چڑ رہا ہو. سیڑھیوں سے کچھ دور کھڑا کتا زور زور سے بھونکنا شروع کر دیتا ہے. وہ ڈری سہمی پیچھے دیکھے بغیر بیرونی دروزے کی طرف بھاگتی ہے.    شام میں جیسے ہی سب لو

Zia Mohyddin ضیا محی الدین

Image
... ضیا محی الدین کا تعارف  ضیا محی الدین 20جون 1933ء کو فیصل آباد میں پیدا ھوئے . ان کے والد خادم محی الدین تدریس کے شعبے سے وابستہ تھے .انہیں پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد کے مصنف اور مکالمہ نگار ھونے کا اعزاز حاصل تھا . ضیا محی الدین نے 1949ء میں گورنمنٹ کالج لاھور سے گریجویشن کیا اور مزید تعلیم کے حصول کے لیے پہلے آتریلیا اور پھر انگلستان چلے گئے ، جہاں انہوں نے رائل اکیڈمی آف تھیٹر آرٹس سے وابستگی اختیار کی اور صدا کاری اور اداکاری کا سلسلہ شروع کیا . 1956ء میں وہ پاکستان واپس لوٹے لیکن جلد ہی ایک اسکالر شپ پر انگلستان واپس چلے گئے ، جہاں انہوں نے ڈائرکشن کی تربیت حاصل کی . 1960 میں جب ای ایم فوسٹر کے مشہور ناول اے پیسج ٹو انڈیا کو اسٹیج پر پیش کیا گیا تو ضیا محی الدین نے اس میں ڈاکٹر عزیز کا کردار ادا کر کے شائقین کی توجہ حاصل کر لی . 1962ء میں انہیں فلم لارنس آف عربیا میں کام کرنے کا موقع ملا تو انھوں نے اس فلم میں بھی ایک یادگار کردار ادا کیا . بعد ازاں انہوں نے تھیٹر کے کئی ڈراموں اور ہالی وڈ .   کی کئی فلموں میں کردار ادا کیے . 1970   میں ضیا محی الدین پاکستان آئے جہاں انھوں

Best romentic Novel 2021 "dewani"

Image
 You can copy paste with writer name without any change . قسط نمبر 3لاسٹ #از_نشرح_عروج قسط۳  " پریشے "  آپ آ کر اسٹاف روم سے نوٹس لے لینا۔ سر ادریس جو  پریشےسے پہلے اترنے والی دو لڑکیوں کو کوئی کمنٹ کر کے ہنستے ہوئے اوپر چلے آ رہے تھے لڑکیاں بھی ہنستی ہوئی نیچے اتر گئی تھیں پریشےسے اچانک  مخاطب ہوئے۔ " ہوں۔۔ اوکے میں آ کرلیتی ہوں سر ہمایوں کی کلاس مس ہو جائے گی۔" "نہیں ایسا کریں آپ ابھی لے لیں میں نے جلدی جانا ہے" " وہ پھر بغیر سوچے  سرادریس کے پیچھے چل دی۔ پری نے اسٹاف روم کا دروازہ بغیر آواز کے کھولا اور خود ہی بند ہو گیا۔  دن گیارہ بجے کا ٹائم تھا سب ٹیچرز کلاسس میں تھے۔  سسرادریس الماری تک گیا۔  پینٹ ٹی شرٹ اوپر لانگ بلیک کوٹ  پہنے جسکی آستین کہنیوں تک مڑی ہوئی تھی پری سینے پہ ہاتھ باندھے  دروازے میں ہی کھڑی تھی۔ "پریشے میں آپ کو نوٹس تو دوں گا لیکن آپ کو  میری ایک بات ماننی پڑے گی" "کیا " پری نے اپنی گہری بھوری آنکھیں چھوٹی کی۔  "چھوٹی سی وش ہے میری فرینڈ بن جائیں گرل فرینڈ نہیں  بس اچھی سی فرینڈ" "کیا مطلب ہے آ

best romentic novel 2021 "Dewani"

Image
 #ناول_دیوانی #از_نشرح_عروج کلاس شروع ہونے میں کچھ منٹ رہتے تھے۔ کلاس روم کافی بڑا تھا جس میں اسٹوڈینٹس کے الگ الگ بینچ سیڑھیوں کی طرح سے لگے ہوئے تھے۔ کلاس میں لڑکے لڑکیاں خوش گپیوں میں مصروف تھے۔  سامنے والی دیوار پہ بڑی بڑی اسکرین لگی تھیں۔  وہ کلاس میں داخل ہوا سلام کیا تو کلاس میں ہوا کی طرح خاموشی  شروع سے لے کر آخر چھا گئی۔ مکمل خاموشی۔وہ ڈائس پہ آ کر کھڑا ہوا۔  سامنے والی ایک اسکرین پہ اس کی  ویڈیو ابھری۔ جو کے کلاس میں موجود سب اسٹوڈنٹس کو واضع دیکھائی دے رہی تھی۔    اس کا حلیہ عام سا تھا۔ سفید ٹی  شرٹ جینزمیں ملبوس تھا ۔ سیفد جوگر پہنے ہوئے تھے۔ منہ اور ناک ماسک میں چھپے ہوئے تھے۔ "اسٹوڈنٹس " وہ مائیک میں بولا تو چوتھی لائن میں رچسٹر پہ اسکچنگ کرتے پرشے کے ہاتھ رکے۔ اس نے سر اٹھا کر دیکھا۔ وہ اسکے بھورے بالوں سے ایک منٹ میں اسے پہچان گئی۔ " اومائی گارڈ" اس نے بے ساختہ سرگوشی کی۔ لیکن وہ ماسک میں تھی اور سر ہمایوں اسے پہچانتے بھی نہیں تھے۔اسی لیے وہ نارمل ہو گئی۔ ان کی پہلی براہ راست کلاس تھی سو وہ کچھ کمپیوٹر کی بیسکس اور کچھ کووڈ-19 کی احتیاط بتا کر چلے گ

new best romentic novel 2021 "dewani"

Image
 #ناول_دیوانی قسط نمبر1 #از_نشرح_عروج نا جانے کب ختم ہو گا یہ کرونا کا رونا اوپر سے یہ آن لائن کلاسس ہمارے سر پہ لا کر بیٹھا دی ہیں۔ "یار لائبہ تم نے ہینڈ فری تو نہیں دیکھے میرے" اف دو منٹ رہتے ہیں کلاس اسٹارٹ ہونے میں۔ "ہاں تکیے کے نیچے تو ہیں" لائبہ جو بالوں کو اسٹریٹ کرنے میں مصروف تھی ایک دم چونک کر بولی۔ "کب سے ڈھونڈ رہی ہوں بندہ بتا ہی دیتا ہے۔" پری نے لپک کر ہینڈ فری لیے اور وہیں بیڈ پہ بیٹھے بیٹھے لیپٹاپ لیا اور اس میں لگا کر اپنے کانوں میں لگائے۔  اپنے کھلے ہاف گھنگھرلے بالوں کو پیچھے کر کے جوڑے کی شکل دی۔ اور آن لائن کلاس کے لیے  سٹنگ کرنے لگی کافی سارے اسٹوڈینٹس آ چکے تھے کچھ سے اس نے چیٹنگ کی جس کے بعداسے پتا چلا آج کوئی نیو ٹیچر آ رہے ہیں۔ جنکی آمد ابھی تک نہیں ہوئی۔ اس نے اس بات پہ منہ بسورا۔کیونکہ جب ٹیچر چینج ہوتا تھا تو اسے کچھ سمجھ نہیں آتا  ابھی تک اسے اپنے کلاس فیلوز سے پتہ چل چکا تھا کہ یہ ٹیچر کچھ ماہ کے لیے ہائر کیا گیا ہے۔ ٹیچر اسکرین پہ نمودار ہوا ابھی وہ بھی مائیک اسیٹنگ میں مصروف تھا۔ "یار لائبہ ادھر آؤ ادھر آؤ  اپنا نیا ٹچی

Article 2020.

Image
 برمودا ٹرائی انیگل نشرح عروج  (اسلام آباد)  انسان کا شعور خزاں کے خشک پتوں کی طرح اس کے وجود سے چھڑ  کر زمین پہ بکھرتا جا رہا ہے اور عجیب بات تو یہ ہے وہی شعور انسان اپنے ہی قدموں تلے روند کر اسے ریزہ ریزہ کر رہا ہے.  کل ہی کی تو بات ہے کسی نے ایک فرشتے کو زندہ جلا دیا.  فرشتوں کے سامنے بہشت کو روند دیا گیا. خدائے مجازی کے سامنے  اس کی شریک حیات کو رسوا کیا گیا. سوچیں , خیال یہاں تک کہ وہم و گماں بھی منجمد ہیں اور خُزن,ملال,افسوس و تعجب سے یہ کہہ رہے ہیں کاش اللہ تبارک تعالٰی نے انسان کو عقل نہ عطا کی ہوتی. ہراسمنٹ کے قانون کو پاس ہوئے دس سال بیت گئے لیکن آج بھی تربیت گاہوں میں تربیت کار نئی نسل کی  تربیت ہراس کر کے کسی نئے ہی انداز میں کر رہے ہیں. وہ تربیت کار چاہیے یونیورسٹی کا پروفیسر ہو یا سینے میں قرآن لیے عالم دین. اپنی ہی نسل کے لیے نئے معاشرے کی تشکیل کیے جا رہے ہیں. کیا ان کی نسلیں آسمانوں پہ پروان چڑھیں گی؟؟ یا یہ لوگ اس گماں میں ہیں کہ موت کے بعد قرض صرف پیسوں کا ہوتا ہے جو ان کی نسل  یعنی کے ان کےوجود کا حصہ باآسانی چکا دے گی.ہر گز نہیں قرض تو آنسو بھی ہیں . قرض تو دھوکہ ب

2020 motorway Article.

Image
 برمودا ٹرائی انیگل نشرح عروج  (اسلام آباد)  انسان کا شعور خزاں کے خشک پتوں کی طرح اس کے وجود سے چھڑ  کر زمین پہ بکھرتا جا رہا ہے اور عجیب بات تو یہ ہے وہی شعور انسان اپنے ہی قدموں تلے روند کر اسے ریزہ ریزہ کر رہا ہے.  کل ہی کی تو بات ہے کسی نے ایک فرشتے کو زندہ جلا دیا.  فرشتوں کے سامنے بہشت کو روند دیا گیا. خدائے مجازی کے سامنے  اس کی شریک حیات کو رسوا کیا گیا. سوچیں , خیال یہاں تک کہ وہم و گماں بھی منجمد ہیں اور خُزن,ملال,افسوس و تعجب سے یہ کہہ رہے ہیں کاش اللہ تبارک تعالٰی نے انسان کو عقل نہ عطا کی ہوتی. ہراسمنٹ کے قانون کو پاس ہوئے دس سال بیت گئے لیکن آج بھی تربیت گاہوں میں تربیت کار نئی نسل کی  تربیت ہراس کر کے کسی نئے ہی انداز میں کر رہے ہیں. وہ تربیت کار چاہیے یونیورسٹی کا پروفیسر ہو یا سینے میں قرآن لیے عالم دین. اپنی ہی نسل کے لیے نئے معاشرے کی تشکیل کیے جا رہے ہیں. کیا ان کی نسلیں آسمانوں پہ پروان چڑھیں گی؟؟ یا یہ لوگ اس گماں میں ہیں کہ موت کے بعد قرض صرف پیسوں کا ہوتا ہے جو ان کی نسل  یعنی کے ان کےوجود کا حصہ باآسانی چکا دے گی.ہر گز نہیں قرض تو آنسو بھی ہیں . قرض تو دھوکہ ب