Article 2020.

 برمودا ٹرائی انیگل

نشرح عروج  (اسلام آباد) 

انسان کا شعور خزاں کے خشک پتوں کی طرح اس کے وجود سے چھڑ  کر زمین پہ بکھرتا جا رہا ہے


اور عجیب بات تو یہ ہے وہی شعور انسان اپنے ہی قدموں تلے روند کر اسے ریزہ ریزہ کر رہا ہے.

 کل ہی کی تو بات ہے کسی نے ایک فرشتے کو زندہ جلا دیا.  فرشتوں کے سامنے بہشت کو روند دیا گیا. خدائے مجازی کے سامنے  اس کی شریک حیات کو رسوا کیا گیا. سوچیں , خیال یہاں تک کہ وہم و گماں بھی منجمد ہیں اور خُزن,ملال,افسوس و تعجب سے یہ کہہ رہے ہیں کاش اللہ تبارک تعالٰی نے انسان کو عقل نہ عطا کی ہوتی. ہراسمنٹ کے قانون کو پاس ہوئے دس سال بیت گئے لیکن آج بھی تربیت گاہوں میں تربیت کار نئی نسل کی  تربیت ہراس کر کے کسی نئے ہی انداز میں کر رہے ہیں. وہ تربیت کار چاہیے یونیورسٹی کا پروفیسر ہو یا سینے میں قرآن لیے عالم دین. اپنی ہی نسل کے لیے نئے معاشرے کی تشکیل کیے جا رہے ہیں. کیا ان کی نسلیں آسمانوں پہ پروان چڑھیں گی؟؟ یا یہ لوگ اس گماں میں ہیں کہ موت کے بعد قرض صرف پیسوں کا ہوتا ہے جو ان کی نسل  یعنی کے ان کےوجود کا حصہ باآسانی چکا دے گی.ہر گز نہیں قرض تو آنسو بھی ہیں . قرض تو دھوکہ بھی ہے قرض تو ہر گناہ ہے قرض تو قرض ہے وہ چکانا ہی پڑتا ہے اور جانتے ہو یہ ادا کرنے کی سب سے بڑی صورت مکافات عمل ہے. پھر کیوں کرتے ہو وہ گناہ کہ ایک دن لوٹ کر تمہاری نسل اس کی زد میں آ جائے. نسل جہاں نعمت اور رحمت ہے وہیں گناہگاروں کے لیے زحمت و آزمائش بن جاتی ہے. قرض تو کسی کو دی جانے والی ذہنی اذیت بھی ہے تم کیا جانو ذہنی اذیت کیا ہے ذہنی اذیت  تو ایک پاتال میں موجود گرم تیزاب میں انسان کو زندہ جلانے سے بہت آگے کی داستان ہے. تو پھر بھی ہمارے پاگل خانے اور  پھانسی گھر ویران ہیں. تو سمجھ لو لوگ خود اپنے ماہر نفسیات بن گئے ہیں اور اپنا فیصلہ آسمان والے پہ چھوڑ دیا ہےکہ ایسے لوگوں کا ٹھکانا تو درک اسفل ہے.

درک اسفل وہ جگہ جہاں ناگ کے ساتھ وہ فرشتہ رہتا ہے جسے ابلیس بنا دیا  گیا تھا . انسان تو ولی ہے ابلیس بن ہی نہیں سکتا کاش میں درندے کے معنی سے آشنا ہوتی.ابلیس کا صرف ایک روپ تھا انسان کے تو ہزاروں ہیں. وہ ہزاروں سال مکہ کا طواف کرنے والا فرشتہ وہ جس نے بنی نوع آدم علیہ السلام  کو سجدے سے انکار کیا. آج کے انسان کو دیکھ  کر دماغ یہ سوچنے پہ مجبور ہے شاید ابلیس نے صحیح کیا تھا. ابلیس کی نفرت آدم علیہ اسلام کی ابتداء سے نہیں بلکہ اولادِآدم کے انجام سے تھی کہ ایک دن ایسا ہو گا کہ یہ انسان اس کا بھی جینا حرام کر دے گا.جس کے دل میں رب کی محبت ہو ابلیس اسے آخر کب تک گمرہ کر سکتا ہے وہ بھی تو کسی دور میں رب سے محبت کرتا تھا شاید آج بھی کیونکہ جو شخص اس کے رب سے محبت کرے ابلیس اس کے قریب  بھی نہیں جاتا. ابلیس تو صرف ان گناہگاروں کو گناہ کی طرف راغب کرتا ہے جو صراطِ مستقیم پہ چلنا ہی نہیں چاہتے. اور وہ گناہگار تو جیسے برمودا ٹرائی اینگل میں رہائش پزیر ہیں. گناہ کر کے ایسے غائب ہوتے ہیں جیسے  اس دنیا پہ کبھی تھے ہی نہیں.  پہلے جنگلوں میں چرنے صرف انسان کی عقل جاتی تھی اب وہ اپنے ساتھ ضمیر کو بھی  لے جاتی ہے وہ بھی انسان کی طرح بے حیا ہو گئی ہے. ایک زمانہ تھا شاید دنیا اسے زمانہ قدیم کے نام سے جانتی ہے اب زمانے نے جدید اختیار کر لی ہے قدامت کو بھول گیا ہے کہ جب وہ فقیر ہو کر بھی امیر تھا.اب اسے دولت پہ سو کر بھی سکون میسر نہیں ہے جو نہ اسے ہضم ہوتی ہے نہ اسے اگل سکتا ہے. آج  کا انسان تو سکون سے ہی ناآشنا ہے. بس دوسروں کو نوچ کھانے کے دم پہ ہے. اسے صرف دوسروں  کا مستقبل تباہ کر کے خوشی  ملتی ہے. لیکن زندگی کی اصل خوشی تو سکون ہے.



 آج  اس  معاشرے  کو تربیت یافتہ نہیں تہذیب یافتہ ہونے کی ضرورت ہے. لیکن انسان نے تو اپنی تہذیب خود اپنے ہی ہاتھوں اجاڑ دی ہے. اور تہذیبیں  جب اجڑ جاتی ہیں تو پھر بے حیائی ڈھیرے ڈال لیتی ہے. ذہنی ترقی وہاں سے کوچ کر جاتی ہے. اخلاقیات دفن ہو جاتی ہیں.انسان بھوکے بھیڑیے بن جاتے ہیں.رہنماؤں کی جگہ قزاق پیدا ہوتے ہیں. زمین آسمان لرز جاتے ہیں اور پھر کچھ بھی نہیں بچتا.

                              *************

Comments

Popular posts from this blog

Women's day 2023

horror story