new best romentic novel 2021 "dewani"


 #ناول_دیوانی

قسط نمبر1

#از_نشرح_عروج

نا جانے کب ختم ہو گا یہ کرونا کا رونا اوپر سے یہ آن لائن کلاسس ہمارے سر پہ لا کر بیٹھا دی ہیں۔

"یار لائبہ تم نے ہینڈ فری تو نہیں دیکھے میرے" اف دو منٹ رہتے ہیں کلاس اسٹارٹ ہونے میں۔

"ہاں تکیے کے نیچے تو ہیں" لائبہ جو بالوں کو اسٹریٹ کرنے میں مصروف تھی ایک دم چونک کر بولی۔

"کب سے ڈھونڈ رہی ہوں بندہ بتا ہی دیتا ہے۔" پری نے لپک کر ہینڈ فری لیے اور وہیں بیڈ پہ بیٹھے بیٹھے لیپٹاپ لیا اور اس میں لگا کر اپنے کانوں میں لگائے۔  اپنے کھلے ہاف گھنگھرلے بالوں کو پیچھے کر کے جوڑے کی شکل دی۔

اور آن لائن کلاس کے لیے  سٹنگ کرنے لگی کافی سارے اسٹوڈینٹس آ چکے تھے کچھ سے اس نے چیٹنگ کی جس کے بعداسے پتا چلا آج کوئی نیو ٹیچر آ رہے ہیں۔ جنکی آمد ابھی تک نہیں ہوئی۔

اس نے اس بات پہ منہ بسورا۔کیونکہ جب ٹیچر چینج ہوتا تھا تو اسے کچھ سمجھ نہیں آتا  ابھی تک اسے اپنے کلاس فیلوز سے پتہ چل چکا تھا کہ یہ ٹیچر کچھ ماہ کے لیے ہائر کیا گیا ہے۔

ٹیچر اسکرین پہ نمودار ہوا ابھی وہ بھی مائیک اسیٹنگ میں مصروف تھا۔

"یار لائبہ ادھر آؤ ادھر آؤ  اپنا نیا ٹچیر دیکھاؤں تمھیں  ۔  نئے سرکتنے ینگ ہیں۔   یار انکا ناک لڑکیوں جیسا ہے اور آئ بروز بالکل گھنے کمان جیسے ہیں۔ بال بھی براؤن ہیں۔ نہ داڑھی نہ مونچھ لگتا ہے انگریز  ہے کوئی، پھر تومیں گئی کام سے پٹر پٹر انگلش بولے گا مجھے تو کاکھ نہیں سمجھ آئے گا۔"

لیکن اسکرین پہ ڈھیرسارے میسجز شو ہونا شروع ہو گئے۔ اس کی نظر اسد کے میسج پہ ٹھہر گئ جورومن انگلش میں لکھا تھا۔

"پریشے آپ کا مائیک آن ہے آواز سرتک جا رہی ہے"

دیگر بعد سب کے میسج اس نےایک نظردیکھے سب اسے  منع کر رہے تھے۔

 لیکن اب سب کچھ ہو چکا تھا۔

"مس پریشے اگر میری تعرفیں ختم ہو چکی ہوں تو میں کلاس اسٹارٹ کروں"

دوسری طرف سے سر ہمایوں کی مسکراہٹ چھپاتی بھاری بھر کم رعب دار آواز ابھری۔

پریشے نے آنکھیں بند کیں پھر ہاتھ لیپ ٹاپ کی پشت پہ جما کر ایک دم بند کر دیا۔

ہینڈ فری کانوں سے اتار کر قالین پہ پھینکے۔

" کیا ہوا؟"

لائبہ نے فوراً پوچھا۔

"یہ پوچھو کیا نہیں ہوا۔"

"شِٹ یار وہ ساری میری باتیں سن گیا ہے"

"کون کیا مطلب" لائبہ آکر اسکے گھٹنوں پہ ہاتھ رکھ کر پاؤں کے بل بیٹھی۔

" ابھی میں جس کی عکسرے رپورٹ تمہیں دے رہی تھی۔"

" نئے سر نے"

" صرف سر نے نہیں پوری کلاس نے بھی سن لی ہیں۔ پتہ نہیں مائیک کیسے آن ہوا میرا"

"اُف"  یہ سب سوچ کراس کےلیے سانس لینا مشکل ہو رہا تھا۔

 " رکو میں پانی لے کر آتی ہوں " لائبہ نے پری کا چہرہ زرد پڑتے دیکھ کر کہا۔

پری نے دو گھونٹ بھرے  اور گلاس ٹیبل پہ رکھ دیا۔

"ہو جاتا ہے ایسایار ٹنشن نہ لے" لائبہ اس کے قریب بیٹھ گئ۔

"اوکے میں سو رہی ہوں کچھ دیر " پریشے کمبل لپیٹ کر لیٹ گئی۔

 لائبہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی۔پھر اپنی کچھ کتابیں  اٹھا کر باہر نکل گئ..

                                           ****************

 دیواروں پہ چاروں طرف الماریاں تھیں جن میں کتابیں ایک ترتیب سے رکھی گئ تھیں۔

اسی روم میں بیٹھے میر ہمایوں نے کلاس ختم کر کے کرسی کی پشت سے کمر لگاتے ہوٰئے انگڑائی لی۔ میر ہمایوں کمپیوٹر فلیڈ میں ایم فل کا اسٹوڈنٹ تھا۔ یونيورسٹی نے اسے اسٹوڈنٹس کو کمپیوٹر لنگویجز سیکھانے کے لیے کچھ ماہ کے لیے ہائر کیا تھا۔ میر ہمایوں  اسی یونيورسٹی  کے سابقہ منیجر میر قمر کا اکلوتا صاحب زادہ تھا۔ جن کی موت  دو ماہ پہلے  کرونا وئراس سے ہوئی تھی۔

 ہمایوں چائے کا کپ  ٹیبل سے اٹھا کر کھڑا ہو گیا اور چلتے ہوئے کھڑکی تک آیا باہر سڑک پہ ٹرفیک رواں دواں تھیں۔   

اس کا  موبائل وائبریٹ کرنے لگا۔

 اس نے موبائل پنٹ کی جیب سے نکال کر  کال پک کی۔

اسلام و علیکم ادریس صاحب کیسے ہیں آپ؟


جی الحمدللہ  سب خیریت ہے۔

جی ادریس صاحب میں نے آپ کا پروجیکٹ دیکھا تھا۔ آدھا ہو بھی چکا ہے میں آج رات مکمل کرکے آپ کو دیتا ہوں۔

جی جی آپ بے فکر ہو جائیں انشااللہ آج ہو جائے گا۔

جی جی اللہ حافظ۔

                                                         ************

 رات آٹھ بجے کے قریب  اس کے  چہرے پر سے  کسی نے کمبل اٹھایاتو ایک دم سے اس کی آنکھ کھلی۔  گہری نیند میں ہونے کی وجہ سے اس کی آنکھوں کے سامنے دھندلاہٹ چھائی ہوئی تھی۔وہ ابھی اور بھی سونا چاہ رہی تھی اس نے کروٹ بدل لی۔

"یہ کیا میری پری بابا کےساتھ نہیں ملنا"

"نہی۔۔۔۔۔۔"

 آدھا لفظ اس کے منہ میں رہا اور وہ چیختی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی۔


اس نے بیڈ پہ کھڑے کھڑے دھمال ڈال دیا۔

وہ بابا کے گلے لگ گئ۔

بابا آپ کو نہیں پتہ میں نے ابھی ابھی خواب میں آپ کو دیکھا تھا۔اور بہت سارے جہاز بھی جن میں سے ایک پہ آپ تھے۔

"آپ نہ مجھے بہت بہت بہت زیادہ یاد آ رہے تھے۔"

"اس کی آنکھوں سے آنسو نکل گئے۔"

"اوئے میرا پگلا بیٹا رو کیوں رہا ہے اب میں آگیا ہوں نہ اب ہم خوب موج مستی کریں گے۔"

وہ آنکھیں صاف کر تے ہوئے بیڈ سے نیچے اتری۔

"ہاں بالکل"

"لائبہ کہاں ہے؟"

"اوپر اسٹڈی روم میں  ہے کل اس کی پرزنٹیشن ہے۔ اسی کی تیاری میں مصروف ہے"

 "کیا بات ہے آج تو کچن سے بڑی خوشبو آ رہی ہے۔ مریم بی آج کیا بات ہے"

پری شرارت بھرے لہجے میں بولی۔

"خبردار  مجھے بی بولا تو ماما ہوں میں تمھاری"

" او میں بول گئی تھی۔  ویسے ہمارے لیے تو کچھ بناتی نہیں آج  آہہہم آہہہم۔۔۔ "

پری نے بابا کی طرف دیکھ کر پھر ماما کو آنکھ ماری۔

"پری۔۔۔۔۔۔" ماما نے اسے آنکھیں دیکھائی۔

تو اس کے چہرے سے ہنسی غائب ہو گئی۔

"بابا  آئیں  ہم لائبہ کو سرپرائرز دیتے ہیں اس عورت کو چھوڑیں یہ بہت سخت ہو گئی  ہے اب کوئی نئی لے کر آتے ہیں"

"پری جوتے کھاؤ گی مجھ سے " مریم پری کو ڈانٹتے ہوئے بولی۔

"دیکھا بابا میں نے ویسے تو نہیں بولا"

"ہاں بالکل۔ اب تمھارے لیے نئی ماما لاتے ہیں۔پہلے لائبہ سے تو مل لیں"

بابا نے پری کے کاندھے پہ ہاتھ رکھ کر اسے اوپر جاتی سیڑھوں کی طرف موڑا۔

"ہاں بالکل"  

 "بائے بائے ڈارلنگ" پری پیچھے مڑ کر  ماما کو ہاتھ ہلا کر آئبرو اچکاتے ہوئے شرارت سے بولی۔

"اللہ نے یہ نمونہ پتہ نہیں میرے گھر کہاں سے بھیج دیا۔"

" دو شکرانے کے نوافل ادا کر آئیں آپ کو میں ملی ہوں"

دونوں باپ بیٹی سیڑیاں طے کر کے اسٹڈی روم کے سامنے پہنچ چکے تھے۔

"اللہ معاف کرے تمھاری قنچی کی طرح چلتی زبان سے"

مریم کچن سے ہو کر اونچی آواز میں بولیں۔

" میڈم میں اندر آ سکتی ہوں" پری نے دستک دی۔

"آجاؤ"لائبہ مطالعہ میں منہمک بولی۔

اس کی پشت دروازے کی طرف تھی۔ سامنے موجود کھڑکی سے روشنی اندر آ رہی جس سے  اس کے سنہری بال چمک رہے تھے۔

"تو میری چشمش بہنا کیا ہو رہا ہے" پری اس کے سامنے جا بیٹھی۔

" تم بھی پہن لو" لائبہ چشمے کے پیچھے سے اسے گھورتے ہوئے پھر سے کتاب کی طرف متوجہ ہو گئ۔

" میں بھلا کیوں پہنو چشما"

"کیونکہ تمہیں دیکھائی نہیں دے رہا کہ کیا ہو رہا ہے"

"ایک تو تم کسی کےبھی سامنےجو میری میٹھی میٹھی بےعزتی کر جاتی ہو نہ مجھے بڑا برا فیل ہوتا ہے"

"او فتنے باز لڑکی کس کے سامنے کی میں تمھاری بےعزتی ان کتابوں کرسیوں ٹیبل کے سامنے تمھیں بےعزتی فیل ہو رہی ہے حد ہے"

"اب دیکھو تم  نے مجھے فتنے باز بھی بول دیا۔میں ابھی بابا کو کال کرتی ہوں" پری نے روتی شکل بنائی۔

" یہ لو میرا سیل ابھی کال ملاؤ۔ "

پری نے کہنی ٹیبل پہ جما کر ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھا۔

"مجھے کال ملانے کی ضرورت نہیں ہے۔ پری نے لائبہ کی بائیں سائیڈ اشارہ کیا۔

 "لائبہ نے اپنی بائیں طرف دیکھا۔ پھر اپنی نظر اس طرف کھڑے شخص کے پاؤں سےلے کر سر تک لے گئ۔ 

"بابا" چہرے پہ نگاہ جاتے ہی اسکی چیخ نکل گئی۔

 وہ ایک دم اٹھ کر بابا کے سینے سے لپٹ گئ۔

" بابا " ہم نے بہت مس کیا آپ کو"

"اور آپ نے دیکھا اس ڈرامے باز کو۔ کتنا تنگ کرتی ہے مجھے"

"ہاں اب ہم مل کر اے تنگ کریں گے"

" اور سنائے میرا بیٹا ٹھیک ہے"

"جی بابا اے ون ہوں"

 آپ بتائیں آپ نے آج آنا تھا تو بتایا کیوں نہیں۔

"بس میں نے سوچا آج میں آپ کو سرپرائز دیتا ہوں"

" اچھا میں نے جو چیز بولی تھی وہ لائی۔" پری   چہچہاتی ہوئی بولی۔

" آپ کی بولی ہوئی چیز میں بھول سکتا ہوں بھلا"

                                                ****************** 

"جی ادریس صاحب آپ کو کیسا لگا میرا کام میں نے پانچ کے بجائے چھ ویب سائٹس ڈویلپ کر دی ہیں آپ کو جو  پسند  نہ آئے سکپ کر سکتے ہیں۔"

"کیا کہا آپ نے۔۔میں سسٹم ہیک کروں معاف کیجیے گا آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے میں ایلیگل کام نہیں کرتا"

"ادریس صاحب میں لالچی نہیں ہوں۔ایک بات صاف صاف کہہ دی  ہے نہیں کر سکتا تو نہیں۔" اس  کی آواز معمول سے اونچی تھی۔

"میں لیٹ ہو رہا ہوں اللہ حافظ" ہمایوں نے  یہ کہہ کر فون رکھا۔

اس نے موبائل  ٹیبل پہ رکھا نفی میں سر ہلایا۔ پھر خود کو نارمل کرتے ہوئے لیپ ٹاپ اوپن کیا۔

 اس کے کلاس لینے کا ٹائم ہو چکا تھا۔

                                           ********************

کیا کر رہی ہو ؟ احمد صاحب نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا۔

" بابا کلاس ہو رہی ہے"

"کس کی؟"

" کوئی نیا ٹیچر ہے۔آج ابھی تک کلاس نہیں شروع کی۔مجھے نام بھی نہیں پتا کیوں کہ کل ان کی پہلی کلاس میں میں نے چول ماری تھی ۔ اور پھر میں آف لائن ہو گئی۔"

"کیا کیا تھا" احمد صاحب اس کے قریب بیڈ پہ بیٹھ گئے۔

پری منہ پہ ہاتھ رکھ کر ہسنے لگی۔

 " کلاس اسٹارٹ ہو گئ ہے میں آپ کو بعد میں بتاتی ہوں" پری ہینڈ فری کانوں میں لگاتے ہوئے بولے۔

احمد صاحب اسکرین پہ ابھرنے والے پری کے نئے ٹیچر کو دیکھنے لگے۔

 پھر خاموش رہ کر بور ہو گئے تو وہیں پیچھے ٹیک لگا کر سو گئے۔

"بابا اور پری گرم گرم چائے پی لیں" لائبہ کی آواز پہ احمد صاحب نے آنکھیں کھولی۔

 ان کی نظر گھڑی پر پڑی ۔

 انھیں سوئے ایک گھنٹا ہو چکا تھا۔

 پری ابھی بھی گردن جھکائے لیپ ٹاپ پہ بیٹھی تھی۔

"پری چائے " انھوں نے  اس کے ایک کان سے ہینڈ فری نکال کر کہا۔

"بس پانچ منٹ اینڈ ہونے والی ہے"

"اوکے "

 وہ کہتے ہوئے اٹھے اور باہر نکل گئے۔

کچھ دیر میں ہی پری دونوں کانوں میں انگلیاں ٹھنسے کمرے سے باہر نکلی۔

"آج پتہ چلا ہے یہ کان کھانا کسے کہتے ہیں"  وہ  سیفد ٹراؤزر شرٹ میں ملبوس تھی۔ اس نے اپنے گھنگھریالے بالوں کو ہیر بینڈ کی مدد سے پیچھے کیا ہوا تھا۔

"یار میرے نیو سر پٹر پٹر بولتے ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آئی آج تو ۔"

وہ لائبہ کے قریب والی کرسی گھسیٹ کر پیچھے کرتے ہوئے بولی۔

" نالائق سا ہو گا کوئی ٹیچر" لائبہ چائے کا کب اپنے آگےکرتے ہوئے بولی۔

"نہیں نہیں یار ٹیچر توبہت لائق ہے۔ بس مجھے ہی کچھ سمجھ نہیں آئی۔ اور تم کیا یہ ہر کسی کو اپنے سے نالائق ہی سمجھتی ہو جیسے دنیا کی لائق ترین بندی صرف تم ہو"۔


"کیا سسٹم رکھا ہے یونيورسٹیز نے تم لوگوں کی کلاسس کا" احمد صاحب نے اپنے ہاتھ سے اخبار ایک طرف رکھی۔

" یونی نے سب اسٹوڈنٹس کے ویٹس ایپ گروپ بنائے ہیں زوم۔۔ اڈوپ۔۔ کے سافٹ وئیرز ہیں جن پہ وہ اپنے کلاس  ٹائم بتا کر ہمیں گروپ میں لنک دے دیتے ہیں۔  ای میل یا  آئی ڈی۔ پاس کوڈ سے ہمیں آن لائن ہونا پڑتا ہے۔ اور ٹیچر کو سننا پڑتا ہے۔ کوئی بھی کوئسچن ہو یا کچھ سمجھ نہ آئے تو ہم پوچھ سکتےہیں۔ کلاس کے دوران بھی اور بعد میں گروپ میں بھی۔

" یہ کافی بہتر سسٹم ہے۔ کچھ اسٹوڈنیٹس جو یونی صرف ٹائم پاس کے لیے جاتے ہیں۔ وہ بھی کچھ نہ کچھ پڑھ لیتے ہوں گے"

"" اچھا میں نے سنا ہے کالج یونيورسٹیز اس منڈے سے اوپن ہو رہی ہیں۔ اور لائبہ تمھارے فائنل تھیسس کا کیا ہے"

" ہاں پری کی یونی کے اکنامکس کے ٹیچر تھے۔ میں نے ان سے ہلپ کے بولا تھا"

"لیکن انھوں نے نوٹس کے بجائے اسے فرینڈ ریکوسٹ بھیجی ہے"پری گرم گرم  چائے کا کاسپ لیتے ہوئے بوالی۔

"بابا دیکھیں اسے بالکل بات کرنےکی تمیز نہیں ہے"لائبہ تپ کربولی۔

"جو حقیقت ہے وہی بتا رہی ہوں۔اور نمبر بھی تم نے میرا یوز کیا ہے۔ تمھارے نام عاشق شعر و شاعری۔محبت و الفت بھرے خطوط معصول ہوتے ہیں مجھے ۔جو تمھارے پڑھنے کے قابل نہیں ہوتےبلکہ کسی کے بھی پڑھنے کے قابل نہیں ہوتے"

"تو تم نے اسے بلاک کیوں نے کیا" مریم خاصےسخت لہجے میں بولی۔

"ماما میں نے سوچا مے بی موصوف شعر و شاعری کے ساتھ کبھی نوٹس بھی سنڈ کر دیں۔ہم اپنا کام نکلوا کر بلاک کر دیں گی لیکن وہ تو ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ گیا خیر معاف کیجیے گا آج میں بلاک کر دیتی ہوں "

"ویری گڈ۔۔۔۔ایسے لوگوں کو خود سے دور رکھو تو ہی بہتر ہے۔ کچھ لوگ پڑے لکھے جاہل ہوتے ہیں۔ بلکہ آج کل کے دور میں زیادہ لوگ۔  یونيورسٹيوں کالجز حتہ کہ اسکولز میں بھی فیل کرنے کی دھمکی دے کر بہت سی طالبات کی زندگیاں برباد کی جا رہی ہیں"۔

مخلوط نظام تعلیم بہت سی چیزیں عام ہیں میرے خیال میں تم لوگوں کی والدہ تم لوگوں کو اس بارے میں رہنمائی دے چکی ہوں گی۔  میں صرف تم لوگوں کو یاد کراونا چاہتا ہوں۔ جیسے بچپن سے ہم دونوں کو والدین کے بجائے دوست سمجھ کر باتیں شیئر کرتی رہیں ہیں ویسے ہی اب بھی شئیر کریں۔ کیونکہ ہم دونوں کی پوری دنیا تو صرف تم دونوں ہو"احمد صاحب نے شائستگی سے سمجھاتے ہوئے لائبہ کے سر پہ ہاتھ رکھا اور دونوں کی طرف دیکھا۔

"پاپا آپ بےفکر رہیں آپ کی بیٹیاں سمجھدار ہو گئی ہیں"

"آج کل کہ اکثر بچے ماں باپ کو یہی کہتے ہیں۔بچے تو پھر بچے ہی ہوتے ہیں۔میں جب تم لوگوں کی ایج میں تھی اور ایم اے  مکمل کر چکی تھی تو میں سمجھتی تھی مجھ سے زیادہ سمجھدار گھر میں کوئی نہیں ہےاور بس جو چیز جیسے میں چاہوں ویسے ہو۔ ڈگری اور علم کے ساتھ تھوڑا گمنڈ بھی تھا کہ میرے ماں باپ کا دور سادہ تھااور وہ چیزیں جو مجھے پتا ہے میرے ماں باپ نہیں جانتے۔ لیکن وقت کے ساتھ احساس ہوا کہ نہیں میرے ماں باپ جو جانتے تھے وہ میں نہیں جانتی تھی۔ وہ بغیر کوئی بڑی ڈگری حاصل کیے دین کے بارے میں مکمل معلومات رکھتے تھے۔  اکثر ان میں سے مجھے نہیں معلوم ہوتی تھی۔ بہت سے معمالات کو بہتر طریقے سے حل کر سکتے تھے۔ اس کا مجھے تب احساس  ہوا جب ابو کی وفات کے بعد ان کی لکھی کتابیں  پڑھیں۔ اُن کی ہر اس بات سے جس سے مجھے تب اختلاف  ہوتا ہےاور اب دو بچوں کی ماں بننے کے بعد اتفاق ہوتا ہے۔"


"مطلب آپ کافی ضدی تھیں" پری کپ میں اور چائے ڈالتے ہوئے بولی۔

"ہاں تھی پر اب نہیں ہوں"۔

"اب ہم دونوں جو ہیں " لائبہ مسکرا کر بولی

"بالکل ضد کے معاملے میں تم دونوں تو اپنی والدہ پہ ہی گئی ہو۔" احمد صاحب نے عینک کے پیچھےسے مریم کو گھورا ۔

" اچھا بتاؤ یونی کب کھل رہی ہیں تم دونوں کی۔ میں نے تو نیوز سنی تھی اس منڈے کی بتا رہے تھے" 

"ہاں بابا میں نے بھی اسی منڈے کی سنی ہے میں نے بھی نیوز میں دیکھا تھا بتا رہے تھے"

لائبہ احمد صاحب کی طرف متوجہ ہوئی۔

"اور پریشے آپ کی یونی "

"بابا آپ کو پتہ ہے میں نیوزویوز نہیں سنتی اور جب بلانا ہوا تو میسج آ جائے گا " پری نے ناک چڑھاکر کہا۔

 "ہاں یہ ہو اور گمیز ہوں بس یونی سے اسے کیا لینا دینا۔اس نے تو شکر کیا ہے آن لائن ہو رہی کلاسس" لائبہ فوراً بولی۔

" میری گمیز سے تمھیں کیا مسئلہ دیکھنا ایک دن میں پاکستان کی فٹ بال ٹیم کا حصہ ہوں گی تم دیکھ کر جلتی رہنا۔ اور چھٹیوں کا  شکر ایک میں اور پورا پاکستان منا رہا ہے سوائے تمھارے"

"پری میں دیکھ رہا ہوں ۔۔۔ بدتمیز ہوتی جا رہی ہو۔ بڑی بہن ہے تمہاری عزت سے مخاطب ہوا کرو"

" پڑھائی پہ توجہ دو اپنی کمپنی کوآگے تم دونوں نے ہی لے کر جاناہے۔میری جسم میں تو اب جان نہیں رہی"

" لائبہ میں سوچ رہا تھا آپ کل میرے ساتھ آفیس چلو کچھ کام وغیرہ سمجھو۔ اور اگر یونی کی کلاسس شروع ہوتی ہیں تو سکنڈ ٹائم یونی سے آفس آ جایاکرو۔ آج خود کو ٹف ٹائم دو گی تو  آگے جا پاؤ گی"

"جی بابا جیسے آپ چاہیں" لائبہ نے ٹیبل کوگھورتے ہوئے تابعداری سے کہا۔

                                                        ***************

#ناول_دیوانی

قسط ۱

https://m.facebook.com/groups/NovelHiNovel/permalink/1593071120879958/

قسط نمبر2

#از_نشرح_عروج


کلاس شروع ہونے میں کچھ منٹ رہتے تھے۔ کلاس روم کافی بڑا تھا جس میں اسٹوڈینٹس کے الگ الگ بینچ سیڑھیوں کی طرح سے لگے ہوئے تھے۔ کلاس میں لڑکے لڑکیاں خوش گپیوں میں مصروف تھے۔  سامنے والی دیوار پہ بڑی بڑی اسکرین لگی تھیں۔

 وہ کلاس میں داخل ہوا سلام کیا تو کلاس میں ہوا کی طرح خاموشی  شروع سے لے کر آخر چھا گئی۔

مکمل خاموشی۔وہ ڈائس پہ آ کر کھڑا ہوا۔

 سامنے والی ایک اسکرین پہ اس کی  ویڈیو ابھری۔ جو کے کلاس میں موجود سب اسٹوڈنٹس کو واضع دیکھائی دے رہی تھی۔

   اس کا حلیہ عام سا تھا۔ سفید ٹی  شرٹ جینزمیں ملبوس تھا ۔ سیفد جوگر پہنے ہوئے تھے۔ منہ اور ناک ماسک میں چھپے ہوئے تھے۔

"اسٹوڈنٹس " وہ مائیک میں بولا تو چوتھی لائن میں رچسٹر پہ اسکچنگ کرتے پرشے کے ہاتھ رکے۔ اس نے سر اٹھا کر دیکھا۔ وہ اسکے بھورے بالوں سے ایک منٹ میں اسے پہچان گئی۔

" اومائی گارڈ" اس نے بے ساختہ سرگوشی کی۔

لیکن وہ ماسک میں تھی اور سر ہمایوں اسے پہچانتے بھی نہیں تھے۔اسی لیے وہ نارمل ہو گئی۔

ان کی پہلی براہ راست کلاس تھی سو وہ کچھ کمپیوٹر کی بیسکس اور کچھ کووڈ-19 کی احتیاط بتا کر چلے گئے۔

 اسٹوڈنٹس کچھ دیر ان کی تعریفوں میں مصروف رہے۔ کچھ لڑکیاں تو دل تھام کر بیٹھ گئی۔

  سب اسٹوڈنٹس اپنی سیٹس سے  آہستہ آہستہ اٹھے اور باہر نکلنا شروع ہو گئے۔

 وہ بھی کچھ دیر بیٹھی رہی پھر اپنا چھوٹا کالا بیگ اٹھایا کھڑی ہوئی اور سیڑھیاں  نیچے اترتی گئی۔  وہ ریڈ ٹی شرٹ جینز کے منی کوٹ اور پنٹ میں ملبوس تھی۔ پاؤں میں  ریڈ کلر کے سینکرز پہنے تھے۔

گھنگریالے بال ہیر بینڈ کی مدد سے پیچھے کیے ہوئے تھے جو  اس شانوں پہ پھیلے ہوئے تھے۔

ببل چباتے ہوئے وہ باہر نکلی تو کلاس کے سامنے  سر ہمایوں اور سر ادریس کو ساتھ کھڑے پایا۔ سر ہمایوں کی پشت اس کی طرف تھی۔

وہ ببل چبانا ترک کر چکی تھی۔

   وہ ایک طرف سے نکلنے لگی۔

" پریشے بات سنے"

 سر ادریس کی آواز پہ اس کے قدم رکے۔ وہ پلٹی تو سر ادریس اسی کی طرف چلے آ رہے تھے۔

" جی سر فرمایے" پری ان سے پیچھے کھڑے  سر ہمایوں کو نظر انداز کرتے ہوئے پر اعتماد لہجے میں بولی جو  اس وقت اسے ہی دیکھ رہے تھے۔

وہ آپ کو شاید کوئی نوٹس چاہیے تھے۔یا آپ کی سسٹر کو شاید لیکن بغیر کوئی بات کیے میرانمبر بلاک کر دیا۔

"جی نوٹس چاہیں تھے لیکن اکنامکس کے عشق و معشوقی والے نہیں" 

 "لیکن آپ کو بلاک ہو کر بھی عقل نہیں آئی۔ صبح بھی آپکے نمبر سے پرائیویٹ میسجز کی بھر مار ہو ہورہی تھی۔ سمجھ جائیے یہ نا جو بال سر  پہ بچے ہیں ان سے بھی جائیں "

 پیچھے کھڑےسر  ہمایوں نے بامشکل ہنسی روکی۔ لیکن پھر بھی اس کے کندھے ڈانس کرنے لگے۔ 

 پریشے کی نظر ان  پہ پڑی لیکن ہمایوں  سیریس ہوتے ہوئے آگے بڑھے۔

"اکسیکوزمی سرادریس یہ فائل آپ رکھ لیں میں لیٹ ہو رہا ہوں" وہ ان دونوں کے قریب آ کر بولے۔ فائل ادریس صاحب کو دیتے ہوئے پریشے کو گھورتے ہوئے ان سے دوسری طرف نکل گیا۔


" میں بھی لیٹ ہو رہی ہوں بائے " پری بھی کہتے ہوئے ہمایوں کے پیچھے چل دی۔ 

 " اس نیوسر کے تو جیسے پیر نہیں ٹائر لگے ہوئے تھے۔ وہ تیز قدم چلتے ہوئے بولی۔

 پھر اسٹوڈنٹس کے درمیان بھاگنے کے سے انداز میں آگے بڑھی۔

" اکسیکوزمی سر ہمایوں" اس نے مڑ کر دیکھا پریشے اسکے  ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔

وہ ایک قدم رکا ۔

" سر وہ میں نے اس دن کے لیے سوری کرنی تھی۔ میں نے سوچا اب آپ نے مجھے پہچان  لیا ہو گا تو میں سوری کر لوں۔"

ہمایوں نے دماغ پہ زور دیا لیکن اسے نہیں یاد تھا کس چیز کے لیےوہ سوری بول رہی ہے۔ وہ اپنی روز مرہ زندگی میں مصروف ہی اتنا رہتا تھا کہ چھوٹی چھوٹی باتیں اسے  یاد ہی نہیں رہتی تھیں۔

وہ بار بار گھڑی کی طرف دیکھتا آگے بڑھ رہا تھا۔

"سر وہ اس دن آپ کی فرسٹ کلاس میں میرا مائیک آن۔۔۔۔"

" او اچھا اچھا آپ اس کی بات کر رہی ہیں۔ تو آپ  وہ پریشے ہیں۔" وہ مسکرایا۔

" جی بس میں نے آپ سےسوری کہنا تھا"

"اٹس اوکے نو ایشو" وہ کہتے ہوئے اسٹاف روم میں انٹرہوا۔

 " تھنکس سر " وہ کہتے ہوئے آگے نکل گئی۔

                                             ********************

"ادریس صاحب  آپ نے کیا سوچا ہے اپنی لائف کے بارے میں اچھی خاصی ایج ہوچکی ہے۔ شادی کا کیا ارادہ ہے۔  شادی رچائیں ہمیں بھی دعوت دیں ہم بھی کوئی شادی کا کھانا کھائیں ویسے عرصہ ہوگیا ہے شادی کھانا کھائے۔"   سٹاف روم جب تینوں ٹیچر بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے تو اسلامیات اسلامیات کے شعبے سے منسلک صف علی نے ادریس سے پوچھا۔

" میں تو شادی کرنا چاہتا ہوں پر کوئی لڑکی ہی نہیں مل رہی"

" لو جی لڑکیاں تھوڑی" صف ہمایوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے بولا۔

" ہاں یہ بات تو ہے پر جیسی میں ڈھونڈ رہا ہوں ویسی نہیں مل رہی۔ عالمہ پردے کی پابند۔ صف صاحب آپ کی نظر میں ہو کوئی تو بتا دیں آپ کا تعلق تو اسی شعبہ سے ہے "

 واہ ویسے سر مجھے تو لگ رہا تھاآپ کسی سوشل لڑکی کی تلاش میں ہیں۔ ہمایوں ہاتھ میں پکڑی کتاب بند کر کے ٹیبل پہ رکھی۔

"نہیں نہیں سوشل لڑکیاں باہر ہی اچھی لگتی ہیں۔انھیں گھر کون لے کر جاتا ہے" سر ادریس ناک چڑھا کر بولا۔

" آپ کی اس سوچ کو کواکیس توپوں کی  سلامی " ہمایوں اٹھتے ہوئے بولا۔

" چلیں قاری صاحب عصر اداکر لیں ہم لیٹ ہو رہے ہیں۔ ادریس صاحب آپ بھی ادا کر لیا کریں نماز دنیامیں عالمہ ملے نہ ملے یہ نہ آخرت کی حوروں سے بھی جائیں"

 ہمایوں نے صف کے ساتھ تالی لگائی۔وہ دونوں مسکراتےہوئے باہر نکل گئے۔

                                                          *************

     " بابا آپ نے بولا تھا نہ ہم اس سنڈے فٹ بال کلب چلیں گے ۔  توابھی تک کس خوشی میں سوئے ہوئے ہیں ۔ چلیں اٹھیں۔"پری نے بابا کے منہ پہ ٹھنڈے پانی کے چھنٹے مارے۔دیکھیں ماما اور لائبہ خالہ کے گھر جانےکے لیے تیار بھی ہو گئی ہیں۔ ہم دونوں کیا بور بور گھر پر پڑے رہیں گے۔ 

" پری میری آنکھیں نہیں کھل رہی تھوڑی دیر ویٹ کر جاؤ"

 " بابا دیکھیں تو آپ کے وائف تیار ہو کر لیش پش کررہی ہے۔ کیالگ رہی ہے۔ آپ دیکھیں گے تو آپ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔ دیکھیں  تو آپ کی پنتیس  سالہ وائف بیس کی لگ رہی ہے" پری اب ایک طرف سے اٹھ کر بابا کی دوسری طرف بیڈ پہ کمبل میں گھس کر بیٹھ چکی تھی۔ اور آئینے میں مسکراتی اپنی ماما کو دیکھ رہی تھی۔

احمد صاحب نے اپنے چہرے سے کہنی اوپر کر کے آئینے کی طرف دیکھا۔

" آااااا۔چوری پکڑی گئی۔ کتنے نخرے کر رہے ہیں بابا۔" پری نے شور مچایا۔

" چلیں اٹھیں  بابا۔"

"ٹھیک ہے۔ لیکن ایک شرط پہ"

"کیا بابا"  پری نے سستی سے گردن ایک طرف جھکائی۔

 "میرے لیے ناشتہ آج پری بنائے گی"۔

 "اویہ تو کوئی بات نہیں ہے۔ آپ فرش ہوجائیں میں ابھی ناشتہ بناتی ہوں"۔

 پری فوراً سے کمبل ہٹا کر بیڈ سے نیچے اتر گئی۔

 پری پریکی اس بات پہ احمد صاحب کی آنکھیں سچ میں کھل گئی۔

 وہ کمبل ہٹاتے ہوئے اٹھے۔

آہستہ آہستہ مریم کے پیچھے آئے ان کا حلیہ غیر تھا بال بکھرے ہوئے تھے۔ مریم آپ سچ میں آج بہت پیاری لگ رہی ہیں ۔ وہی بالکل مریم بیس سال پہلے والی جو بہار میں میری زندگی میں بہار کی طرح شامل ہوئی تھی۔ مریم احمد کی طرف مڑی براہ مہربانی  واش روم میں گھس جائیے ورنہ وہ چڑیلنی پھر آتی ہو گی۔

" لائبہ کیا کر رہی ہو " پری اس کے کمرے میں آ کربولی۔

"ماما کاویٹ کر رہی ہوں" لائبہ نے اکتاہٹ بھرے لہجے میں کہا۔

" ماما تو بابا کے کےکپڑے پرس کر رہی ہیں تم بابا کے لیے ناشتہ بنا دو  مامانے بولا ہے"

پری نے دروزے سے ہی ہو کر کہا۔

" یارر۔ اچھا بناتی ہوں" 

لائبہ اپنی جگہ سے اٹھی۔

"ایسےکرو تم پراٹھا اور  آملیٹ بنا دو چائے میں سب کچھ ڈال دو میں دیکھ لوں گی"

"لائبہ نے آنکھیں جھپکائی۔

"تم دیکھ کر کیا کرو گی اور رہ ہی کیا جائے گا"

دونوں کچن میں پہنچی۔

"ایسے کرو پری تم چائے رکھو میں پراٹھا بنا دوں۔"

"پری نے برتن اٹھایا۔ اس میں پانی بھرا۔

" یار پری کم کرو پانی۔ ایک کپ بنانا ہے"


" اور کیا ڈالتے ہیں چائے میں " پری کے سوال پہ لائبہ نے اسے گھور کردیکھا ۔

"چینی پتی اور دودھ"

"اوکے" پری پاؤں پہ فریج کی طرف گول گھومی۔

"دودھ اتنا  ڈال دوں"

"ہاں تھوڑا اور"بس ٹھیک ہے۔

" رکو رکو یہ نمک ہے چینی نہیں" پری پری نمک ڈالنے لگی تھی لائبہ نے اس کا ہاتھ پکڑا۔

" اور اب پتی ڈالو کم کرو کڑوی ہو جائے گی چائے"۔

" ہاں اب ٹھیک اب بن جائے گی چائے"

"پری ایک بات بتاؤ "

"جی فرماؤ"

" یہ چائے آگ کے بغیر بنے گی کیا؟؟"

"ہیں"

"میں پوچھ رہی ہوں چائے آگ کے بغیر بنے گی میری شکل کیادیکھ رہی ہو آگ جلاؤ چائے کے نیچے"

"اچھا رکو میں خود جلاتی ہوں یہ نہ جل جاؤ تو پورےمحلے کو اکٹھا کرو گی کیا بنے گا تمھارا"

" تم میری ساس نہ بنو جو کام کہا ہے وہ کرو" پری جوس کا گلاس لے کر شلف پہ  آرام سے بیٹھ چکی تھی۔

"چلو لائبہ میں تیار ہوں "  مریم دونوں کی آوازیں  سن  کر  کچن میں آئی۔

ماما ایک منٹ بابا کے لیے ناشتہ بنا لوں۔

"لیکن ناشتہ تو۔۔۔"

"ماما  بابا کدھر ہیں" مریم اپنی بات پوری کرتی پری نے منع کرتے ہوئے بابا کا پوچھا۔

" وہ شیو بنارہے ہیں" 

"اچھا آپ دونوں جائیں میں بابا کو ناشتہ  دے دیرتی ہوں"

"اتناتو تم کر ہی لو گی"

لائبہ نے آپرن اتارا شرٹ کی آستین آگے کیں ۔ اور ماما کےساتھ کچن سے باہر نکل نکل گئی۔

 وہ جب گراؤنڈ میں انٹر ہوئے تو اس کی ٹیم  کے بھی کافی لوگ آ چکے تھے۔

پہلےوہ لائبہ کے ساتھ آتی تھی لیکن آج کافی عرصےکے بعد بابا کے ساتھ آئی تھی۔

وہ گراؤنڈ میں چلی گئی۔جہاں ایک طرف نٹ لگی تھی۔ 

احمد صاحب دور کرسیوں میں سےایک کرسی پہ بیٹھے تھے۔

 ایک آدمی ان کے قریب آ کر بیٹھا۔ پری نے دور سے ہی پہچان لیا تھا وہ سر ادریس تھا۔

وہ جب انٹر ہو رہی تھی تب وہ گیٹ پہ کھڑاتھا۔ اس کے سر پہ بلیک ہیٹ تھی۔

"اسلام  وعلیکم سر آپ پری کے والد ہیں شاید" وہ احمد صاحب حبسے مخاطب  ہوا۔

احمد صاحب نے اسے گھور کر دیکھا۔

"جی پر آپ کو نہیں پہچانا میں نے"

" جی میں پریشے کا ٹیچر ہوں ہمایوں نام ہے میرا" ادریس نے بڑی سفاکیت سے جھوٹ بولا۔

"آپ پریشے کو یونی چھوڑنے آئے تھے تو آپ پہ نظر پڑی تھی تو ابھی اتفاق سے یہاں ملاقات ہو گئی"

تھاتو یہ اتفاق ہی لیکن احمد صاحب نہیں جانتے تھےان کے پاس بیٹھا  خوبصورت  معصوم دیکھائی  دینے والے شخص  کےاندر ایک درندہ چھپا بیٹھا ہے جو ان کی بیٹوں کو کاٹ کھانے کے دم پہ ہے۔

"باباکیاباتیں ہو رہی تھیں  آپ کی ان سے" گراؤنڈ  سے نکلتے ہی پری کا پہلا سوال یہی تھا

"کچھ خاص نہیں" احمد صاحب کےموبائل کی بل بجی وہ کسی کے ساتھ کال پہ مصروف ہو گئے"

 

                                                          *************

Read My Novels

Beega Maze &

Dua aor Taqdeer 

                                    نشرح عروج :ناولز  Nashra urooj:Official  

                                                          *************

" پریشے "  آپ آ کر اسٹاف روم سے نوٹس لے لینا۔ سر ادریس جو  پریشےسے پہلے اترنے والی دو لڑکیوں کو کوئی کمنٹ کر کے ہنستے ہوئے اوپر چلے آ رہے تھے لڑکیاں بھی ہنستی ہوئی نیچے اتر گئی تھیں پریشےسے اچانک  مخاطب ہوئے۔

" ہوں۔۔ اوکے میں آ کرلیتی ہوں سر ہمایوں کی کلاس مس ہو جائے گی۔"

"نہیں نہ آپ ابھی لے لیں میں نے جلدی جانا ہے"

" وہ پھر بغیر سوچے  سرادریس کے پیچھے چل دی۔

پری نے اسٹاف روم کا دروازہ بغیر آواز کے کھولا اور خود ہی بند ہو گیا۔ 

دن گیارہ بجے کا ٹائم تھا سب ٹیچرز کلاسس میں تھے۔ 

سسرادریس الماری تک گیا۔

 پینٹ ٹی شرٹ اوپر لانگ بلیک کوٹ  پہنے جسکی آستین کہنیوں تک مڑی ہوئی تھی پری سینے پہ ہاتھ باندھے  دروازے میں ہی کھڑی تھی۔

"پریشے میں آپ کو نوٹس تو دوں گا لیکن آپ کو  میری ایک شرط ماننی پڑے گی"

جاری-

 

        

                             

Comments

Unknown said…
Superb... May Allah Give You More Success Ahead

Popular posts from this blog

Women's day 2023

horror story

Article 2020.