Best romentic Novel 2021 "dewani"

 You can copy paste with writer name without any change .


قسط نمبر 3لاسٹ

#از_نشرح_عروج


قسط۳ 

" پریشے "  آپ آ کر اسٹاف روم سے نوٹس لے لینا۔ سر ادریس جو  پریشےسے پہلے اترنے والی دو لڑکیوں کو کوئی کمنٹ کر کے ہنستے ہوئے اوپر چلے آ رہے تھے لڑکیاں بھی ہنستی ہوئی نیچے اتر گئی تھیں پریشےسے اچانک  مخاطب ہوئے۔

" ہوں۔۔ اوکے میں آ کرلیتی ہوں سر ہمایوں کی کلاس مس ہو جائے گی۔"

"نہیں ایسا کریں آپ ابھی لے لیں میں نے جلدی جانا ہے"

" وہ پھر بغیر سوچے  سرادریس کے پیچھے چل دی۔

پری نے اسٹاف روم کا دروازہ بغیر آواز کے کھولا اور خود ہی بند ہو گیا۔ 

دن گیارہ بجے کا ٹائم تھا سب ٹیچرز کلاسس میں تھے۔ 

سسرادریس الماری تک گیا۔

 پینٹ ٹی شرٹ اوپر لانگ بلیک کوٹ  پہنے جسکی آستین کہنیوں تک مڑی ہوئی تھی پری سینے پہ ہاتھ باندھے  دروازے میں ہی کھڑی تھی۔

"پریشے میں آپ کو نوٹس تو دوں گا لیکن آپ کو  میری ایک بات ماننی پڑے گی"

"کیا " پری نے اپنی گہری بھوری آنکھیں چھوٹی کی۔ 

"چھوٹی سی وش ہے میری فرینڈ بن جائیں گرل فرینڈ نہیں  بس اچھی سی فرینڈ"

"کیا مطلب ہے آپ کا آپ کو شرم آنی چاہیے اتنی گھٹیا سوچ وہ بھی میرے بارے میں "

ادریس نے اس کاغصہ دیکھ کر قہقہ لگایا اور اس کے قریب آیا۔

" پریشے آپ تو مائنڈ کر گئی میں تو چیک کر رہا تھا میں نے مزاق کی ہےجسٹ"

 ادریس  اس کے کندھےپہ ہاتھ رکھا۔ اور اس کے اور قریب ہو گیا

 لیکن اگلے ہی لمحے وہ کونے میں پڑا کراہا رہا تھا۔

پری کی آنکھیں شعلے برسا رہی تھی۔اس نے ماہر کانگ فو کی طرح اسے کیک لگائی۔

وہ خاموشی سے کھڑی سر ادریس کو زمین پہ پڑا دیکھ کر محضوظ ہو رہی تھی جب اسے اپنے پیچھے قدموں کی ہلکی چاپ محسوس ہوئی۔

وہ ہاتھوں کے گھونسے بنائے ایک ہاتھ تھوڑا پیچھے ایک آگے وہ فوراً گھومی۔اس کے بال اس کے منہ سے ٹکرا کر پیچھے گئے۔

ہمایوں اس کے پیچھے کھڑے تھا۔وہ ماتھےپہ بل ڈالے نیچے پڑھے ادریس کو دیکھ رہا تھا۔

 پری اسے اپنے سامنے کھڑے  پاکر بوکھلا گئی دو قدم پیچھے ہٹی۔

"تم باہر جاؤ" ہمایوں نے شائستگی سے کہا۔

پری نے اپنے کانپتے ہاتھ نیچے کیے۔ اس کے لیے اپنی جگہ سے ہلنا مشکل ہو رہا تھا.

اسے کچھ سنائی نہ دیا کہ سر نے کیا بولا ہے. 

"میں نے بولا نہ باہر جاؤ"

وہ بغیر کچھ کہے بھاگتے ہوئے باہر نکل گئی. 

ارسلان نے اسٹاف روم کا دروازہ بند کر دیا. 

اس دن یونیورسٹی میں یہ بات پھیلی تھی سیڑیوں پر سے گرنے سے سر ادریس کو ایمرجنسی  میں ہاسپٹل  شفٹ کیا گیا ہے.

ارسلان پوری یونیورسٹی  میں گھوما پر اسے پریشے کہیں نظر نہ آئی.  

تھک ہار کر ایک طرف بیٹھ  گیا. 

 

                                                            ****************

پورے گھر میں کودتی پھرتی لڑکی اچانک اپنے کمرے میں قید ہو گئی.

وہ اس لمحے کے بارے میں سوچتی تو اسکی آنکھوں کے  سامنے سائے لہرا جاتے.

دوسرے دن صبح بخار نے اسے گھیر لیا.  رات رونے کی وجہ سے اسکی آنکھیں لال سرخ اور سوجھ چکی تھی. 

 وہ اٹھ کر واش روم میں گئی.چہرے کی بری حالت بنی ہوئی تھی. اس نے منہ دھویا.  تھوڑی بہت کریم لپ اسٹک لگا کر چہرہ سیٹ کیا.  پھر زبردستی مسکرائی. لیکن آنکھیں پھر بھی بے رونق سی تھیں. ایک لمحے نے اس کی ساری چمک چھین لی تھی.  وہ روم میں آئی تو اس کا کا جسم بخار سے کانپ رہا تھا. وہ دوبارہ کمبل میں گھس گئ. 

 پھر اس کی آنکھ اس وقت کھلی جب اسے اپنے ماتھے پہ ٹھنڈ کا احساس ہوا.

اس کی وجہ سے احمد صاحب آفیس نیہں گئے تھے وہ اس کے سر پہ پٹیاں رکھ رہے تھے مریم بیڈ پر بیٹھی اس کے لئے سوپ ٹھنڈا کر رہی تھی. 

لائبہ اس کے پاؤں دبا رہی تھی. 

"بابا " اس نے اپنے ماتھے پہ رکھے احمد صاحب کے ہاتھ پکڑے. 

" جی میرا بیٹامیرے بیٹے  کو کیا ہو گیا"

"پانی" پری کو اپنا گلا اور ہونٹ خشک محسوس ہوئے. 

"یہ لو" مریم نے اسے بیٹھا کر گلاس اس کی طرف سے بڑھایا. 

اتنے میں ڈور بیل بجی اور ڈاکٹر آ گیا. 

"احمد صاحب یا تو بخار ٹھنڈ کی وجہ  سے ہے یا پھر آپ کی بیٹی  کسی خوف یا صدمے سے گزر رہی ہے. "

"جیسے کہ آپ نے بتایا کہ یہ صبح سے دو بار بے ہوش ہو چکی  ہے.  ہو سکتا ہے یہ کسی خوف میں مبتلا  ہے. آپ زیادہ سے زیادہ اسے ٹائم دیں" ڈاکٹر  چیک اپ کرنے کے بعد احمد صاحب کے ساتھ گیٹ تک آیا.

                                                               ****************                                                     

                                                               ****************

تین چار دنوں میں پری بہتر ہو چکی تھی. لیکن بدل چکی تھی.  نہ ناشتے پہ کوئی  ضد نہ لائبہ  کو اپنے جوتے کو پہنے جاتے دیکھ کر غصہ ہوئی نہ کسی سے لڑائی  کی. گھر میں سب نے پوچھا  کوئی پریشانی  ہے تو بتاؤ پر اس کے پاس الفاظ ہی نہیں تھے کسی کو کیسے بتاتی.

آج بھی اسے یونیورسٹی  آنے کا دل نہیں تھا پر بابا اسے زبردستی  چھوڑ گئےکہ دوستوں کے ساتھ اٹھے بیٹھے گی تو بہتر ہو جائے گی. اس نے باباسے اپنی یونی ٹرانسفر  کرنے کا بولا لیکن احمد صاحب نے اس کی اس بات کو سیریس نہ لیا. 

وہ اپنے ڈیپارٹمنٹ  سے دور ایک بینچ پہ بیٹھی تھی  آج بھی وہ گزرنے والے سٹوڈنٹس کی آہٹوں سے سہم جاتی.

"پریشے" اسے اپنے قریب آہٹوں کے ساتھ آواز بھی سنا دی. 

 وہ بوکھلاہٹ سے  دوسری طرف مڑی. 

" بہت ڈھونڈا آپ کو" وہ ہمایوں تھا. 

"کیا میں یہاں آپ کے ساتھ  کچھ دیر بیٹھ سکتا ہوں"

پریشے نے بیٹھنے کا اشارہ کیا.

  وہ  ہاتھ میں پکڑی فائل اور کچھ بکس درمیان میں رکھتے ہوئے بینچ کی  دوسری طرف بیٹھا. 

"آپ نے فائیٹ کہاں سے سکھی" ہمایوں کچھ دیر بعد بولا. 

"فٹ بال پلیئر  ہوں" پری نے بےزاری سے جواب  دیا"

"پھر تو آپ کو بہت اسٹرونگ ہونے چاہیے آپ بھاگ کس چیز سے رہی ہیں"


"شاید آپ سے اور اپنوں سے کہ وہ مجھے غلط نہ سمجھ لیں .یقین مانے  میری کوئی  غلطی نہیں تھی" پری کی آنکھوں میں نمی آ گئی. 


"پریشے میں جانتا ہوں ہوں آپ کی کوئی غلطی نہیں تھی اسی لیے تو یہاں آپ کے ساتھ ہوں"

"اگر آپ میرا ساتھ  دیں تو ہم مل کر لڑ سکتے ہیں" ہمایوں گہری سوچ سوچتے ہوئے  بولا

"کیا مطلب آپ کا"

"مطلب یہ ہے کہ آپ میری بات غور سے سنیں

میں کچھ حقیقت بیان کرنے لگا ہوں نہ تو آپ اس یونیورسٹی  کی پہلی خوبصورت لڑکی ہیں نہ ہی پہلی زہین لڑکی . آپ سے پہلے بھی بہت سی خوبصورت  لڑکیاں اس یونیورسٹی  سے ٹاپ کر کے نکلی ہیں. کیا آپ یقین  سے کہہ سکتی  ہیں کہ جس ٹیچر کو دس سال اس یونیورسٹی میں پڑھاتے گزر گئے  ہیں.اس کی نظر  ایک واحد صرف آپ ہی پہ آ کر ٹھہری ہو گی جس کا ایڈمیشن اس سال ہوا ہے. بالکل بھی نہیں.اگر آپ اس کی باتوں میں آ جاتی.  کیونکہ ہر لڑکی کی ذہنیت  آپ جیسی نہیں ہوتی ہر لڑکی آپ جیسی اسٹرونگ نہیں ہوتی. یہاں جب ایسے کیسز لڑکیاں گھروں  میں بتاتی ہیں کہ والدین ان کی پڑھائی روک دیتے ہیں.  لڑکیاں فیل ہونے سکینڈل  بننے کے ڈر سے کسی کو نہیں بتا سکتی.  پھر ان کی لاشیں یا تو ان کے اپنے روم سے ملتی ہیں.   یا یونیورسٹی  کالجز ہوسٹل کے رومز سے.

ایسے ہوس کے بچاری ہر انسٹیٹیوٹ  میں موجود ہوتے جو یہ نہیں جانتے یا انہیں یہ احساس نہیں ہوتا ان کے کچھ لمحے کی ہوس کسی کے دماغ,  گھر, زندگی پر ہمیشہ کی قیامت ڈھا دیتی ہے.

"آپ نے اس یونیورسٹی  میں پڑھنے والی ہر لڑکی کے لئے مثال بننا ہے.

"آپ خود ادریس کے خلاف ایف  آئی آر درج کروائیں  گی.  آپ یہ کیس عدالت میں لے کر جائیں گی."

آپ صرف اپنے لئے نہیں بلکہ اس یونی کی ہزاروں  لڑکیوں کے ثبوت تلاش کریں گی جن کی زندگیاں  اس شخص  سے جڑی رہی  ہیں.  آپ اپنے لیے نہیں اوروں کے لئے لڑیں گی"

" اس کے لئے سب سے سے پہلے آپ نے اپنی فیملی کو آگاہ کرنا ہے کیونکہ دنیا میں فیملی سے زیادہ آپ کو کوئی نہیں  جانتا آج آپ کے پاس زندگی ہے آپ کے والدین کی وجہ سے. دنیا میں  آپ کا ہمدرد آپ کے والدین  سے زیادہ کوئی نہیں ہوتا. مجھے ادریس پہ بہت پہلے سے شک تھا پہلے دن جب اس یونی میں آیا تھا.  لیکن آپ کے واقعے  سے مجھے یقین  ہو گیا کہ وہ ایک اُستاد کے روپ  میں درندہ ہے."

"اگر آپ راضی ہوں تو میں آپ کا پورا ساتھ  دوں گا" 

"لیکن آپ نے کرنا سب کچھ خود ہو گا میں صرف آپ کو ہیکر بنے میں مدد کروں گا"

"میں کل تک انتظار کر رہا ہوں. آپ سوچ سکتی ہیں. اب میں چلتا ہوں"

 وہ اٹھ کر چل پڑا.

 وہ دور تک اسے دیکھتی رہی. اس دن پری کوئی کلاس لئے بنا جلدی گھر آ گئی. 

اپنے روم میں  بند ٹہلتی رہی. سر ہمایوں کی باتیں  شروع سے آخر تک سوچتی رہی. 

"پری چائے پی لو آ کر تم نے کھانا بھی نہیں کھایا آج" لائبہ نے تھوڑا سا دروازہ  کھولا. 

پری کھڑکی کے پاس کھڑی تھی.

آتی ہوں وہ مرجھائے سے لہجے میں بولی.

آخر تمھیں ہو کیا گیا ہے بتاتی کیوں نہیں  ہو.  کوئی بھوت بلا دیکھ لی ہے.  یا ہارو موویز تو نہیں دیکھ رہی آج کل" لائبہ فل دروازہ کھول کر اندر آ گئی. 

"کچھ نہیں ہوا چھوڑو میرا ہاتھ."پری چڑ کر بولی. لائبہ دو قدم پیچھے ہٹی اور پھر تیز قدم اٹھاتی اس کے کمرے سے باہر نکل گئی.

پری بھی کچھ دیر میں باہر نکل آئی سب ڈائنگ ٹیبل پہ تھے اور سب ہی خاموش تھے.

"مجھے آپ سب سے بات کرنی ہے"

وہ کرسی کی ٹیک پہ ہاتھ رکھ  کر بولی. 

"جی بیٹا آرام سے بیٹھ کر کرو بات"

"بات آرام سے بیٹھ کر کرنے والی نہیں ہے بابا"

"کیونکہ کیا ہوا" ماما بابا لائبہ تینوں حیرت اس کا چہرہ دیکھ رہے تھے. لائبہ سے تو ہو جاتی تھی پر آج تک بابا سے اس نے کبھی اس لہجے میں بات نہیں کی تھی. 

"بابا وہ شخص  جو اس دن گراؤنڈ  میں آپ کے ساتھ بیٹھا تھا اس نے"

"کیا کیا اس نے"

احمد صاحب اپنی جگہ سے کھڑے ہو گئے.    

پری نے ہمت کر کے ساری بات بتائی. یہ بھی کہا کہ وہ اس کے خلاف کیس کرنا چاہتی ہے .  وہ اسے ایسے نہیں چھوڑے  گی.پری نے پھر سے خود کو کمرے میں بند کر لیا.

وہ سب ابھی تک ایک دوسرے کی طرف  دیکھ رہے تھے. 

احمد صاحب اس کے پیچھے  لپکے لیکن وہ دروازہ بند کر چکی تھی.

"پری دروازہ کھولو  " انھوں نے دروازہ کھٹکھٹایا "

"میں اسے سلاخوں  کے پیچھے دیکھنا چاہتی ہوں"وہ روتے ہوئے  دہاڑی. 

"ٹھیک ہے میں ابھی جا رہا ہے ہوں بس میرا بیٹا روئے نا" احمدصاحب نے  گاڑی کی چابی لی.  روکیں احمد سوچ سمجھ کر کوئی فیصلہ کریں بیٹی کا معآملہ ہے."

" اس کا باپ ابھی زندہ ہے میں کھڑا ہوں گا اپنی بیٹی کے ساتھ. "

مریم دوبارہ کرسی پہ گر گئی. لائبہ  نے مریم کو پانی پلایا اور پری کے روم کا دروازہ پٹنے لگی. 

                                                           ****************

                                                           ****************

"مسٹر ہمایوں  ہمارے پاس آپ کے آرسٹ وارنٹ ہیں"  ہمایوں نے گیٹ کھولا تو سامنے پولیس  کھڑی تھی.  

"میرے آرسٹ ورانٹ" ہمایوں کے چہرے پہ کئی رنگ آئے اور گئے. 

"جی"

آپ کو ضرور  کوئی غلط فہمی ہوئی  ہے میرے آرسٹ وارنٹ کس چیز کہ میں کسی ایسی ایکٹیویٹی  میں نہیں ملوث "

یہ تو آپ کو تھانے چل کر پتہ چلے گاایسے ہی چلیں گے یاہھتکڑی  لگائیں. 

"مجھے بتائیں تو میری غلطی کیا ہے"

"آپ پہ اسٹوڈنٹ  کو ہراس کرنے کا کیس ہے."

"سر آپ کو غلط فہمی ہوئی  ہے"

" لے چلو اسے گاڑی میں ڈالو.."

"ہمیں غلط فہمی ہوئی ہے.لاحولاوالاقوت"

                                                           ****************

                                                           ****************

"بابا دیکھیں بابا ساتھ والی گاڑی یہ وہ وہی ہے " پری نے آگے ہو کر دیکھا وہ ادریس کی گاڑی تھی جو سگنلز  پہ ان کے ساتھ رکی تھی وہ ادریس ہی تھا پری نے پہچان لیا تھا. 

"ہاں لیکن میری رات کو ایس پی سے بات ہوئی ہے اس نے تو بولا تھا وہ ہمایوں کو گرفتار کر چکے ہیں لیکن یہ یہاں کیسے" 

"کیا بابا ہمایوں اس کا نام  ہمایوں نہیں ہےبابا اس کا نام  ادریس ہے " 

"بابا آپ نے یہ کیا کر دیا" پری نے بےبسی سے بابا کی طرف سے دیکھا. 

"بیٹا مجھے اس نے اپنا ہمایوں کی بتایا تھا"

"بابا ابھی کے ابھی گاڑی موڑیں ہمیں پولیس اسٹیشن  جانا ہے"


                                                           ****************

                                                           ****************

وہ سلاخوں کے پیچھے  کونے میں بیٹھا تھا. اسے اتنی نفرت کسی سے نہیں ہوئی تھی.جتنی ایک رات میں پریشے سے ہوئی تھی.  اسے اس کے ہی جال میں ہی پھنسایا گیا تھا. 

"باہر آؤ ملاقات  آئی  ہے تمہاری." وہ جلدی میں اٹھ کر سلاخوں تک آیا دروازہ کھلنے کا انتظار کرنے لگا. موبائل وہ گھر پر چھوڑ آیا تھا اسے تجسس تھا کون اس کا خیر خواہ اس سے ملنے آ گیا ہے.

وہ باہر آیا آگے سپاہی تھا اور پیچھے وہ آفیس میں داخل ہوا تو پریشے اسے دیکھتے ہی  کھڑی ہو گئی. 

 ہمایوں کے قدم اسے دیکھتے ہی   رک گئے.

"یہاں اب کیا دیکھنے آئی ہو میرا تماشہ " وہ بجلی کی سی تیزی سے اس تک پہنچا.  

"تمہیں شرم نہیں آئی مجھ پہ اتنا گھٹیا الزام لگاتے ہوئے" وہ ڈر کر ایک قدم پیچھے  ہوئی. 

اس کا غصہ ساتویں آسمان پہ تھا.  اگر یہ پولیس اسٹیشن  نہ ہوتا تو وہ اسے قتل کر دیتا"

" کول ڈاؤن مسٹر ہمایوں" ایس پی بولا. " 

"سر کیا کول ڈاؤن ہاں ابھی میں نے اپنے کیرئیر  کا آغاز کیا تھا میرا مستقبل برباد کر کے کہہ رہے ہیں کول ڈاؤن . اس ایف آئی  آر کے بعد کیا کوئی  ادارہ مجھے رکھنے پہ راضی ہو گا "

"بیٹا یہ غلطی مجھ سے ہوئی ہے.  معاف کر دو مجھے" احمد صاحب سے ہمایؤں کی بے بسی دیکھی نہ گئ  تو ہاتھ جوڑ لیے.

"انکل آپ نے بہت بڑی غلطی کی ہے"

احمد صاحب منت سماجت کر کے ہمایوں کو اپنے گھر لے آئے. پولیس ادریس کو آرسٹ کر چکی تھی. 

                                                             ****************

                                                             ****************

آج وہ عدالت سے ادریس کے خلاف کیس جیت کر نکلے تھے. 

ہمایوں نے ایک ماہ میں پریشے کو احمدصاحب کے موجودگی میں ہیکنگ سکھائی تھی. وہ لڑکی جو ہر وقت گیمز کھلنے میں مصروف ہوتی تھی اب ڈیجڈز سے کھلنے لگی تھی.  ہمایوں نےثبوت ڈھونڈنے میں اس کی مدد کی تھی. وہ ادریس کی سب ڈیوئسز ہیک کر چکی تھی اس کے پاس  دو لڑکیوں کے قتل  کے ثبوت بھی تھے.  جن کی بیس پہ ادریس کو پھانسی کی سزا سنائی  گئی. 

ہمایوں  اور احمدصاحب گاڑی کی فرنٹ سیٹ  پہ بیٹھے تھےجبکہ پری بیک پہ پری تھی. 

بیٹا میں اپنی غلطی کی تلافی کرنا چاہتا ہوں.میرے پاس ایک کمپنی ہی ہے میں اس کے آدھے شیئرز تمھارے نام کرنا چاہتا ہوں.

"نہیں انکل آپ یہ کر کے مجھ پر  احسان کر رہے ہیں" آپ کی ماشاءاللہ  دو قابل بیٹیاں ہیں آپ انھیں  

کمپنی سونپیں  اور میں نے یہ سب کچھ بغیر لالچ کے صرف انسانیت  ک ناطے کیا ہے. "

" میں جانتا ہوں ہوں بیٹا لیکن دو بیٹیوں کے لئے بیٹے بھی تو چاہیے.میں تمہیں اپنی فرزندگی میں لینا چاہتا ہوں"

پیچھے بیٹھی پری اس بات پہ چونک اٹھی.

"میں لائبہ کے ساتھ تمھاری نسبت طے کرنا چاہتا ہوں" پریشے کی نظریں  بابا کی طرف  اچانک اٹھی تھیں. 

"پر اسے کیا جس سے مرضی ہو اس کی شادی.ایویں ہی کھڑوس سا پروگرامنگ کے دوران اتنا ڈانٹا تو تھا مجھے  ہوں.  اچھا ہے اس چشمش سے ہو جائے اس کی شادی"

 وہ ونڈو سے باہر دیکھنے لگی.  لیکن اس کے دل میں عجیب سی بےچینی نے جگہ لے لی. 

"انکل یہ میرے لیے خوش قسمتی کی بات ہے آپ لائبہ سے بات کر لیں اگر وہ راضی ہیں تو مجھے کوئی اعتراض  نہیں" ہمایوں کچھ دیر کے بعد بولا.

                                                           ****************

                                                           ****************

لائبہ دیکھو یہ سوٹ لائی ہوں تمھارےنکاح کے اچھا ہے نہ"

پریشے نے اسے ایک سفید سوٹ نکال کر دیکھایا. جس پہ سرخ موتیوں کی ڈیزائنگ ہوئی تھی. 

"دیکھو نہ پھر جوتے بھی دیکھاؤں " پریشے شاپنگ بیگ لئے لائحہ کے کمرے میں چلی آئی.  

کتنی بار بولا ہے نہیں کرنا میں نے نکاح میں اگلے ہفتے کینیڈا جا رہی ہوں اسکالرشپ پہ میں نے  اپنی پڑھائی مکمل کرنی ہے بابا کو بتا دو کہ وہ پرسو کی تقریب کینسل کر دیں. 

"تو سر ہمایوں بھی تو جا رہے ہیں اسی لئے تو وہ منگنی کے بجائے نکاح کر رہے ہیں. "

مجھے نہیں  پتہ وہ کہاں جا رہا  ہے نہ میں نے اسکے ساتھ جانا ہے تمھیں شوق ہے تو جاؤمیرا پیچھا چھوڑ دو "

لائبہ سب کچھ بیڈ پہ پھینک  کر باہر نکل گئی.  " پریشے وہیں بیڈ پہ بیٹھ گئی.  "  بیٹھے بٹھائے  اچھا خاصہ بندہ مل رہا ہےبی بی کے نخرے ختم ہو رہے ہیں سنبھل جاؤ بی بی "

پریشے کمرے سے ہو کر چلائی "

                                                           ****************

                                                           ****************

لائبہ چونکہ پری کی طرح بولڈ نہیں تھی اس لئے بابا نے منگنی کا کہا تو مان گئی اس نے سوچا  شادی ہوتے ہوتے ہو گی لیکن ہمایوں نےمنگنی  کے بجائے نکاح کا کہہ دیا تو  بابا ماما سے نکاح کے کینسل کی بات اب وہ کر نہیں سکتی تھی. 

صبح اس کا نکاح تھا اور وہ منٹلی طور پر بالکل تیار نہیں تھی. 

اس کے پیٹ میں ہلکا ہلکا درد شروع ہوا اور درد کی شدت بڑھتی جا رہی تھی. 

"اس نے پانی پیا کچھ جڑی بوٹیاں ماما نے کچن میں رکھی تھی وہ کھائی لیکن درد بڑھتا جا  رہا تھا.

اس نے بابا کے دروازے پہ دستک دی آواز لگائی تو وہ باہر نکل  آئے.

              "بابا مجھے بہت درد ہو رہا ہے" اس کی رنگت زرد پڑتی دیکھ کر احمد صاحب گھبرا گئے اتنے میں مریم بھی باہر آ گئی. 

پری سو رہی تھی اسلیے مریم کو گھر پر ہی چھوڑ گئے. 

لائبہ کو اپنڈکس  پرابلم تھی اس کا آپریشن ہونا تھا مریم نے ہمایوں کو بھی کال کر دی وہ بھی ہاسپٹل چلا گیا.

"او ہیلو میڈم صبح ہو گئی ہے" ہمایوں  جب صبح گھر ناشتہ لینے آیا تو پری کے کمرے کے باہر سے ہو کر آواز لگائی.

"نکاح آپ کا ہو رہا ہے میرا نہیں میں کس خوشی میں جلدی اٹھوں. " وہ تو کب کی جاگی ہوئی تھی پر اٹھی نہیں تھی. 

"خوشی نہیں بیٹا غمی تمھاری بہن ہاسپٹل  میں پڑی ہے اور تمھاری  نیندیں نہیں  پوری ہو رہی" 

"کیا ماما کیوں کیا ہوا اسے " پری اٹھ کر ننگے پاؤں ہی بھاگی بھاگی باہر آئی. 

"پری کوئی بندہ اچانک تمھیں ابھی دیکھ لے نہ تو اس  کی جان ہی نکل جائے"

" ہاں جی مسٹر ہمایوں کوئی بندہ آپ جیسے جن بھوتوں پہ کہاں اثر ہوتا ہے"پری نے ترکی بہ ترکی جواب دیا. " ماما بتائیں نہ لائبہ کو کیا ہوا 

ہے""اپنڈکس  کا آپریشن  ہوا ہے رات میں"

"اب کیسی ہے مجھے کیوں نہیں بتایا"

"بہتر ہے" اس کی ماما کے بجا ئے ہمایوں نے جواب دیا.

تم تیار ہو جاؤ ابھی ہم ہمایوں کے ساتھ  ہی چلتے ہیں. 

                                                           ****************

                                                           ****************

آج نکاح کی تقریب  تھی مہمان بھی اچھے خاصے آ چکے تھے.

مریم جلدی گھر آ  گئی تھی. لائبہ کو شام میں گھر لایا گیا وہ دوائیوں  کے زیر اثر سو گئی. 

نکاح خواں بھی تشریف لا چکے تھے. پری کے سر پر اس وقت بم گرا جب ماما, ہمایوں اور بابا نے اس الگ کمرے میں بلا کر نکاح کے لیے تیار ہونے کو کہا.  گھر مہمانوں  سے بھرا ہوا تھا. بس احمدصاحب اپنے دوستوں اور دور  سے آئے رشتے داروں  کے سامنے اپنا تماشا نہیں بنانا چاہتے تھے. 

 پری نے گردن جھکا لی "اوکے بابا میں تیار ہوتی ہوں"

وہ سب باہر نکلے تو پری نے دروازہ بند کرتے ہی اپنا سر زور سے دروازے پہ مارا.  ماتھے پہ سرخ نشان نمودار ہو گیا.

لائبہ کے لئے لائی ساری چیزیں اسی کے روم میں تھی.  میک اپ, جیولری,ڈوپٹے سے اس کا دور دور سے کوئی رشتہ ناطہ نہیں تھا. اسی لیے اسے آدھا گھنٹہ  سب کچھ یوٹیوب سے سرچ کرتے ہوئے لگ گیا. 

"پری تیار ہو گئی ہو"  ایک گھنٹے  بعد مریم دروازے پہ تھی. 

"جی ماما ایک منٹ کی مجھے دوپٹہ سیٹ کر دیں" پری دروازہ کھولتے ہوئے بولی. 

"ماشاءاللہ  میری بیٹی تو سچ میں پری لگ رہی ہے" 

"اچھا ایک کام اور کریں لائبہ  کے کمرے سے میک اپ لادیں میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے"

"بس پری ایک کاجل لگا لو اور اچھی لگ رہی ہو" روکو جیولری لا دیتی ہوں "

" افف ماما جیولری کون پہنے گا چھوڑیں "

"رکو میں پہناتی ہوں".

اچھا  باہر چلو بہت لیٹ ہو گئے ہیں سب انتظار کر رہے ہیں. 

"مریم پری کا دوپٹہ سیٹ کرتی باہر لے آئآئیں جہاں سب بے صبری سے اس کا انتظار کر رہے تھے"

 

                                                           ****************

                                                           **************

نکاح کی تقریب کل ہو گی چکی تھی مہمان جا چکے تھے. 

وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے گم سم کھڑی تھی. 

"کیا سوچ رہی ہو"

ہمایوں  اس کے سامنے ڈریسنگ سے ٹیک لگا کر اس کی طرف سے مڑکر کھڑا ہو گیا. 

پریشے  نےاسکی آنکھوں   میں دیکھا اور نظریں جھکا لیں 

"کچھ تو سوچ رہی ہیں"

"بس یہی کہ جو سوچا نہیں تھا وہ ہو گیا" پری نے رک رک کر کہا. 


"لیکن میں نے تو سوچ رکھا تھا"

"کیا"

"ہووووں" ہمایوں نے آنکھیں  سکیڑتے ہوئے لب بھنچے اور تھوڑا آگے جھکا اس کے چہرے کے بالکل قریب. 

"یہی کہ شادی کروں  گا تو پری جیسی زہین, اسٹرونگ, کیوٹ, معصوم سی لڑکی سے"

ہمایوں  نے اپنا ناک اس کے ناک سے ٹچ کرتے ہوئے کہا. 

" تو بتایا کیوں نہیں.  پری نے اس کے سینے پہ ہاتھ رکھ  کر اسے پیچھے کیا. "

" تو وہ تم تو نہ نہ ہوتی وہ کوئی اور بھی ہو سکتی تھی"

"ہا جائیں اسی کسی اور کے پاس" پری منہ بنا کر بیڈ پہ جا بیٹھی. 

 "یہ لو آ گیا میں اسی کسی اور کے پاس" ہمایوں  بھی اس کے قریب آ کر بیٹھ گیا.

پری نے مسکرا کر اسے دیکھا .

 ایک سچ بتاؤں کبھی کبھی مجھے لگتا تھا  میں آپ کے لئے دیوانی ہو گئی ہوں.

 شادی وادی کا نہیں سوچا تھا میں نے کبھی پر ہر کام میں ہر جگہ میرے دماغ میں پہلے نمبر  پہ آپ ہی ہوتے تھے. 

"او مائی گاڈ میری پگلی دیوانی. " دونوں کے قہقہے  روم میں گونجنے  لگے. 

ختم شد


                                                           ****************

                                                           ****************

Nashra urooj:official



Comments

Popular posts from this blog

Women's day 2023

horror story

Article 2020.