best romentic novel 2021 "Dewani"

 #ناول_دیوانی

#از_نشرح_عروج


کلاس شروع ہونے میں کچھ منٹ رہتے تھے۔ کلاس روم کافی بڑا تھا جس میں اسٹوڈینٹس کے الگ الگ بینچ سیڑھیوں کی طرح سے لگے ہوئے تھے۔ کلاس میں لڑکے لڑکیاں خوش گپیوں میں مصروف تھے۔  سامنے والی دیوار پہ بڑی بڑی اسکرین لگی تھیں۔

 وہ کلاس میں داخل ہوا سلام کیا تو کلاس میں ہوا کی طرح خاموشی  شروع سے لے کر آخر چھا گئی۔

مکمل خاموشی۔وہ ڈائس پہ آ کر کھڑا ہوا۔

 سامنے والی ایک اسکرین پہ اس کی  ویڈیو ابھری۔ جو کے کلاس میں موجود سب اسٹوڈنٹس کو واضع دیکھائی دے رہی تھی۔

   اس کا حلیہ عام سا تھا۔ سفید ٹی  شرٹ جینزمیں ملبوس تھا ۔ سیفد جوگر پہنے ہوئے تھے۔ منہ اور ناک ماسک میں چھپے ہوئے تھے۔

"اسٹوڈنٹس " وہ مائیک میں بولا تو چوتھی لائن میں رچسٹر پہ اسکچنگ کرتے پرشے کے ہاتھ رکے۔ اس نے سر اٹھا کر دیکھا۔ وہ اسکے بھورے بالوں سے ایک منٹ میں اسے پہچان گئی۔

" اومائی گارڈ" اس نے بے ساختہ سرگوشی کی۔

لیکن وہ ماسک میں تھی اور سر ہمایوں اسے پہچانتے بھی نہیں تھے۔اسی لیے وہ نارمل ہو گئی۔

ان کی پہلی براہ راست کلاس تھی سو وہ کچھ کمپیوٹر کی بیسکس اور کچھ کووڈ-19 کی احتیاط بتا کر چلے گئے۔

 اسٹوڈنٹس کچھ دیر ان کی تعریفوں میں مصروف رہے۔ کچھ لڑکیاں تو دل تھام کر بیٹھ گئی۔

  سب اسٹوڈنٹس اپنی سیٹس سے  آہستہ آہستہ اٹھے اور باہر نکلنا شروع ہو گئے۔

 وہ بھی کچھ دیر بیٹھی رہی پھر اپنا چھوٹا کالا بیگ اٹھایا کھڑی ہوئی اور سیڑھیاں  نیچے اترتی گئی۔  وہ ریڈ ٹی شرٹ جینز کے منی کوٹ اور پنٹ میں ملبوس تھی۔ پاؤں میں  ریڈ کلر کے سینکرز پہنے تھے۔

گھنگریالے بال ہیر بینڈ کی مدد سے پیچھے کیے ہوئے تھے جو  اس شانوں پہ پھیلے ہوئے تھے۔

ببل چباتے ہوئے وہ باہر نکلی تو کلاس کے سامنے  سر ہمایوں اور سر ادریس کو ساتھ کھڑے پایا۔ سر ہمایوں کی پشت اس کی طرف تھی۔

وہ ببل چبانا ترک کر چکی تھی۔

   وہ ایک طرف سے نکلنے لگی۔

" پریشے بات سنے"

 سر ادریس کی آواز پہ اس کے قدم رکے۔ وہ پلٹی تو سر ادریس اسی کی طرف چلے آ رہے تھے۔

" جی سر فرمایے" پری ان سے پیچھے کھڑے  سر ہمایوں کو نظر انداز کرتے ہوئے پر اعتماد لہجے میں بولی جو  اس وقت اسے ہی دیکھ رہے تھے۔

وہ آپ کو شاید کوئی نوٹس چاہیے تھے۔یا آپ کی سسٹر کو شاید لیکن بغیر کوئی بات کیے میرانمبر بلاک کر دیا۔

"جی نوٹس چاہیں تھے لیکن اکنامکس کے عشق و معشوقی والے نہیں" 

 "لیکن آپ کو بلاک ہو کر بھی عقل نہیں آئی۔ صبح بھی آپکے نمبر سے پرائیویٹ میسجز کی بھر مار ہو ہورہی تھی۔ سمجھ جائیے یہ نا جو بال سر  پہ بچے ہیں ان سے بھی جائیں "

 پیچھے کھڑےسر  ہمایوں نے بامشکل ہنسی روکی۔ لیکن پھر بھی اس کے کندھے ڈانس کرنے لگے۔ 

 پریشے کی نظر ان  پہ پڑی لیکن ہمایوں  سیریس ہوتے ہوئے آگے بڑھے۔

"اکسیکوزمی سرادریس یہ فائل آپ رکھ لیں میں لیٹ ہو رہا ہوں" وہ ان دونوں کے قریب آ کر بولے۔ فائل ادریس صاحب کو دیتے ہوئے پریشے کو گھورتے ہوئے ان سے دوسری طرف نکل گیا۔


" میں بھی لیٹ ہو رہی ہوں بائے " پری بھی کہتے ہوئے ہمایوں کے پیچھے چل دی۔ 

 " اس نیوسر کے تو جیسے پیر نہیں ٹائر لگے ہوئے تھے۔ وہ تیز قدم چلتے ہوئے بولی۔

 پھر اسٹوڈنٹس کے درمیان بھاگنے کے سے انداز میں آگے بڑھی۔

" اکسیکوزمی سر ہمایوں" اس نے مڑ کر دیکھا پریشے اسکے  ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔

وہ ایک قدم رکا ۔

" سر وہ میں نے اس دن کے لیے سوری کرنی تھی۔ میں نے سوچا اب آپ نے مجھے پہچان  لیا ہو گا تو میں سوری کر لوں۔"

ہمایوں نے دماغ پہ زور دیا لیکن اسے نہیں یاد تھا کس چیز کے لیےوہ سوری بول رہی ہے۔ وہ اپنی روز مرہ زندگی میں مصروف ہی اتنا رہتا تھا کہ چھوٹی چھوٹی باتیں اسے  یاد ہی نہیں رہتی تھیں۔

وہ بار بار گھڑی کی طرف دیکھتا آگے بڑھ رہا تھا۔

"سر وہ اس دن آپ کی فرسٹ کلاس میں میرا مائیک آن۔۔۔۔"

" او اچھا اچھا آپ اس کی بات کر رہی ہیں۔ تو آپ  وہ پریشے ہیں۔" وہ مسکرایا۔

" جی بس میں نے آپ سےسوری کہنا تھا"

"اٹس اوکے نو ایشو" وہ کہتے ہوئے اسٹاف روم میں انٹرہوا۔

 " تھنکس سر " وہ کہتے ہوئے آگے نکل گئی۔

                                             ********************

"ادریس صاحب  آپ نے کیا سوچا ہے اپنی لائف کے بارے میں اچھی خاصی ایج ہوچکی ہے۔ شادی کا کیا ارادہ ہے۔  شادی رچائیں ہمیں بھی دعوت دیں ہم بھی کوئی شادی کا کھانا کھائیں ویسے عرصہ ہوگیا ہے شادی کھانا کھائے۔"   سٹاف روم جب تینوں ٹیچر بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے تو اسلامیات اسلامیات کے شعبے سے منسلک صف علی نے ادریس سے پوچھا۔

" میں تو شادی کرنا چاہتا ہوں پر کوئی لڑکی ہی نہیں مل رہی"

" لو جی لڑکیاں تھوڑی" صف ہمایوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے بولا۔

" ہاں یہ بات تو ہے پر جیسی میں ڈھونڈ رہا ہوں ویسی نہیں مل رہی۔ عالمہ پردے کی پابند۔ صف صاحب آپ کی نظر میں ہو کوئی تو بتا دیں آپ کا تعلق تو اسی شعبہ سے ہے "

 واہ ویسے سر مجھے تو لگ رہا تھاآپ کسی سوشل لڑکی کی تلاش میں ہیں۔ ہمایوں ہاتھ میں پکڑی کتاب بند کر کے ٹیبل پہ رکھی۔

"نہیں نہیں سوشل لڑکیاں باہر ہی اچھی لگتی ہیں۔انھیں گھر کون لے کر جاتا ہے" سر ادریس ناک چڑھا کر بولا۔

" آپ کی اس سوچ کو کواکیس توپوں کی  سلامی " ہمایوں اٹھتے ہوئے بولا۔

" چلیں قاری صاحب عصر اداکر لیں ہم لیٹ ہو رہے ہیں۔ ادریس صاحب آپ بھی ادا کر لیا کریں نماز دنیامیں عالمہ ملے نہ ملے یہ نہ آخرت کی حوروں سے بھی جائیں"

 ہمایوں نے صف کے ساتھ تالی لگائی۔وہ دونوں مسکراتےہوئے باہر نکل گئے۔

                                                          *************

     " بابا آپ نے بولا تھا نہ ہم اس سنڈے فٹ بال کلب چلیں گے ۔  توابھی تک کس خوشی میں سوئے ہوئے ہیں ۔ چلیں اٹھیں۔"پری نے بابا کے منہ پہ ٹھنڈے پانی کے چھنٹے مارے۔دیکھیں ماما اور لائبہ خالہ کے گھر جانےکے لیے تیار بھی ہو گئی ہیں۔ ہم دونوں کیا بور بور گھر پر پڑے رہیں گے۔ 

" پری میری آنکھیں نہیں کھل رہی تھوڑی دیر ویٹ کر جاؤ"

 " بابا دیکھیں تو آپ کے وائف تیار ہو کر لیش پش کررہی ہے۔ کیالگ رہی ہے۔ آپ دیکھیں گے تو آپ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔ دیکھیں  تو آپ کی پنتیس  سالہ وائف بیس کی لگ رہی ہے" پری اب ایک طرف سے اٹھ کر بابا کی دوسری طرف بیڈ پہ کمبل میں گھس کر بیٹھ چکی تھی۔ اور آئینے میں مسکراتی اپنی ماما کو دیکھ رہی تھی۔

احمد صاحب نے اپنے چہرے سے کہنی اوپر کر کے آئینے کی طرف دیکھا۔

" آااااا۔چوری پکڑی گئی۔ کتنے نخرے کر رہے ہیں بابا۔" پری نے شور مچایا۔

" چلیں اٹھیں  بابا۔"

"ٹھیک ہے۔ لیکن ایک شرط پہ"

"کیا بابا"  پری نے سستی سے گردن ایک طرف جھکائی۔

 "میرے لیے ناشتہ آج پری بنائے گی"۔

 "اویہ تو کوئی بات نہیں ہے۔ آپ فرش ہوجائیں میں ابھی ناشتہ بناتی ہوں"۔

 پری فوراً سے کمبل ہٹا کر بیڈ سے نیچے اتر گئی۔

 پری پریکی اس بات پہ احمد صاحب کی آنکھیں سچ میں کھل گئی۔

 وہ کمبل ہٹاتے ہوئے اٹھے۔

آہستہ آہستہ مریم کے پیچھے آئے ان کا حلیہ غیر تھا بال بکھرے ہوئے تھے۔ مریم آپ سچ میں آج بہت پیاری لگ رہی ہیں ۔ وہی بالکل مریم بیس سال پہلے والی جو بہار میں میری زندگی میں بہار کی طرح شامل ہوئی تھی۔ مریم احمد کی طرف مڑی براہ مہربانی  واش روم میں گھس جائیے ورنہ وہ چڑیلنی پھر آتی ہو گی۔

" لائبہ کیا کر رہی ہو " پری اس کے کمرے میں آ کربولی۔

"ماما کاویٹ کر رہی ہوں" لائبہ نے اکتاہٹ بھرے لہجے میں کہا۔

" ماما تو بابا کے کےکپڑے پرس کر رہی ہیں تم بابا کے لیے ناشتہ بنا دو  مامانے بولا ہے"

پری نے دروزے سے ہی ہو کر کہا۔

" یارر۔ اچھا بناتی ہوں" 

لائبہ اپنی جگہ سے اٹھی۔

"ایسےکرو تم پراٹھا اور  آملیٹ بنا دو چائے میں سب کچھ ڈال دو میں دیکھ لوں گی"

"لائبہ نے آنکھیں جھپکائی۔

"تم دیکھ کر کیا کرو گی اور رہ ہی کیا جائے گا"

دونوں کچن میں پہنچی۔

"ایسے کرو پری تم چائے رکھو میں پراٹھا بنا دوں۔"

"پری نے برتن اٹھایا۔ اس میں پانی بھرا۔

" یار پری کم کرو پانی۔ ایک کپ بنانا ہے"


" اور کیا ڈالتے ہیں چائے میں " پری کے سوال پہ لائبہ نے اسے گھور کردیکھا ۔

"چینی پتی اور دودھ"

"اوکے" پری پاؤں پہ فریج کی طرف گول گھومی۔

"دودھ اتنا  ڈال دوں"

"ہاں تھوڑا اور"بس ٹھیک ہے۔

" رکو رکو یہ نمک ہے چینی نہیں" پری پری نمک ڈالنے لگی تھی لائبہ نے اس کا ہاتھ پکڑا۔

" اور اب پتی ڈالو کم کرو کڑوی ہو جائے گی چائے"۔

" ہاں اب ٹھیک اب بن جائے گی چائے"

"پری ایک بات بتاؤ "

"جی فرماؤ"

" یہ چائے آگ کے بغیر بنے گی کیا؟؟"

"ہیں"

"میں پوچھ رہی ہوں چائے آگ کے بغیر بنے گی میری شکل کیادیکھ رہی ہو آگ جلاؤ چائے کے نیچے"

"اچھا رکو میں خود جلاتی ہوں یہ نہ جل جاؤ تو پورےمحلے کو اکٹھا کرو گی کیا بنے گا تمھارا"

" تم میری ساس نہ بنو جو کام کہا ہے وہ کرو" پری جوس کا گلاس لے کر شلف پہ  آرام سے بیٹھ چکی تھی۔

"چلو لائبہ میں تیار ہوں "  مریم دونوں کی آوازیں  سن  کر  کچن میں آئی۔

ماما ایک منٹ بابا کے لیے ناشتہ بنا لوں۔

"لیکن ناشتہ تو۔۔۔"

"ماما  بابا کدھر ہیں" مریم اپنی بات پوری کرتی پری نے منع کرتے ہوئے بابا کا پوچھا۔

" وہ شیو بنارہے ہیں" 

"اچھا آپ دونوں جائیں میں بابا کو ناشتہ  دے دیرتی ہوں"

"اتناتو تم کر ہی لو گی"

لائبہ نے آپرن اتارا شرٹ کی آستین آگے کیں ۔ اور ماما کےساتھ کچن سے باہر نکل نکل گئی۔

 وہ جب گراؤنڈ میں انٹر ہوئے تو اس کی ٹیم  کے بھی کافی لوگ آ چکے تھے۔

پہلےوہ لائبہ کے ساتھ آتی تھی لیکن آج کافی عرصےکے بعد بابا کے ساتھ آئی تھی۔

وہ گراؤنڈ میں چلی گئی۔جہاں ایک طرف نٹ لگی تھی۔ 

احمد صاحب دور کرسیوں میں سےایک کرسی پہ بیٹھے تھے۔

 ایک آدمی ان کے قریب آ کر بیٹھا۔ پری نے دور سے ہی پہچان لیا تھا وہ سر ادریس تھا۔

وہ جب انٹر ہو رہی تھی تب وہ گیٹ پہ کھڑاتھا۔ اس کے سر پہ بلیک ہیٹ تھی۔

"اسلام  وعلیکم سر آپ پری کے والد ہیں شاید" وہ احمد صاحب حبسے مخاطب  ہوا۔

احمد صاحب نے اسے گھور کر دیکھا۔

"جی پر آپ کو نہیں پہچانا میں نے"

" جی میں پریشے کا ٹیچر ہوں ہمایوں نام ہے میرا" ادریس نے بڑی سفاکیت سے جھوٹ بولا۔

"آپ پریشے کو یونی چھوڑنے آئے تھے تو آپ پہ نظر پڑی تھی تو ابھی اتفاق سے یہاں ملاقات ہو گئی"

تھاتو یہ اتفاق ہی لیکن احمد صاحب نہیں جانتے تھےان کے پاس بیٹھا  خوبصورت  معصوم دیکھائی  دینے والے شخص  کےاندر ایک درندہ چھپا بیٹھا ہے جو ان کی بیٹوں کو کاٹ کھانے کے دم پہ ہے۔

"باباکیاباتیں ہو رہی تھیں  آپ کی ان سے" گراؤنڈ  سے نکلتے ہی پری کا پہلا سوال یہی تھا

"کچھ خاص نہیں" احمد صاحب کےموبائل کی بل بجی وہ کسی کے ساتھ کال پہ مصروف ہو گئے"

 

                                                          *************

Read My Novels

Beega Maze &

Dua aor Taqdeer 

                                    نشرح عروج :ناولز  Nashra urooj:Official  

                                                          *************

" پریشے "  آپ آ کر اسٹاف روم سے نوٹس لے لینا۔ سر ادریس جو  پریشےسے پہلے اترنے والی دو لڑکیوں کو کوئی کمنٹ کر کے ہنستے ہوئے اوپر چلے آ رہے تھے لڑکیاں بھی ہنستی ہوئی نیچے اتر گئی تھیں پریشےسے اچانک  مخاطب ہوئے۔

" ہوں۔۔ اوکے میں آ کرلیتی ہوں سر ہمایوں کی کلاس مس ہو جائے گی۔"

"نہیں نہ آپ ابھی لے لیں میں نے جلدی جانا ہے"

" وہ پھر بغیر سوچے  سرادریس کے پیچھے چل دی۔

پری نے اسٹاف روم کا دروازہ بغیر آواز کے کھولا اور خود ہی بند ہو گیا۔ 

دن گیارہ بجے کا ٹائم تھا سب ٹیچرز کلاسس میں تھے۔ 

سسرادریس الماری تک گیا۔

 پینٹ ٹی شرٹ اوپر لانگ بلیک کوٹ  پہنے جسکی آستین کہنیوں تک مڑی ہوئی تھی پری سینے پہ ہاتھ باندھے  دروازے میں ہی کھڑی تھی۔

"پریشے میں آپ کو نوٹس تو دوں گا لیکن آپ کو  میری ایک شرط ماننی پڑے گی"

             


                  .

Comments

Popular posts from this blog

Women's day 2023

horror story

Article 2020.