Zehnab ki gurya uadas hai by Nashra urooj published in Magazine 2018

 "میری  تحریروں میں سے   ایک مختصر کہانی جو 2018میں "فخر عدالت" میگزین میں شائع ہوئی  .."


#زینب_کی_گڑیا_اداس_ہے

راٸٹر نشرح_عروج


دروازہ پہ پردہ لٹک رہا تها جو بار بار ہوا کہ زور سے اڑ رہا تها.باہر محلے میں خاموشی تهی وہ صحن میں بچهی چارپائ پہ لیٹا آسمان کو گهور رہا تها.ایک سرخ سینے والی چڑیا اس کے سر پہ چہچہا رہی تهی.

 آصفہ کچن میں ہانڈی بنانے میں مصروف تهی. تهوڑی دیر پہلے روتی اس کی آٹھ اور نو سالہ بیٹیاں اب چپ کر کے کمرے کے دروازہ کی چوکهٹ پہ بیٹھی تھی وہ باہر جانے کی ضد کر رہی تهی.اس کی محلے ہی میں ایک دکان تهی جس سے کمائ اچهی ہو جاتی تهی اور وہ اپنے گهر والوں کا پیٹ بهرتااور کبهی فاقوں تک کی نوبت آ جاتی. یہی قدرت کا قانون بهی تها.وہ زیادہ پڑها لکها تو نہ تها پر زمانہ کی اونچ نیچ کو اچهی طرح سمجهتا تها.وہ بهی جو اس سال زمانہ نے قیامت دیکهائ تهی.وہ اپنی بچیوں کے بارے میں پریشان تها کیا وہ اس محلے میں رہ کر کیا اپنی بچیوں کو علٰی تعلیم دے سکے گا اللہ تعالیٰ نے اسے صرف بیٹیاں ہی دی تهی اور ملک کے بگڑتے حالات اسے اور پریشان کر رہے تهے.وہ ہاتھ سر کے نیچے  رکهے سوچ میں گم تها آصفہ نے کهانا لا کر اس کے قریب رکھ کر اٹهنے کا کہا .وہ یوں ہی سوچوں میں گم تها

کیا ہوا کوئ پریشا نی ہے کیا.....؟

جمشید اس کی بات پر چونک گیا..

اٹھ کر سیدهے بیٹهتے ہوئے کهوئے کهوئے انداز میں بولا.... تجوریاں جب جاہلوں کی دسترس میں آ جائیں،تو شعور اور مفلسی کی قباپہنے دربدر پهرنے لگتا ہے.کبهی کبهی مجهے اپنے اندر کے خالی پن سے خوف آنے لگتا تها. زندگی کے سفر میں کچھ مسافر ایسے بهی ملتے ہیں،جو آپ کے اندر کی خاموشی کے پاؤں میں گهنگهرو باندھ جاتے ہیں ہیں.

کہیں راتیں میری  ماں بهی سو نہیں سکی تهی.میں راتوں کو اس کے پاس بیٹها رہتا ایک دن مجهے کہتی ہے میری باتوں پر حیران نہ ہوا کر ماں تو روح کی بینائ ہوتی ہے..

وہ رکا آصفہ بهی اس کی باتیں سنتے سنتے اس کے پاس بیٹھ گئ.

میں زندگی میں کبهی جیت نہیں پایا.ہار ہی ہمیشہ میرا مقدر بنی. کبهی کبهی مجهے لگتا ہے میں جیت گیا ہوں لیکن پهر پتہ نہیں کہاں سےزینب میرے سامنے آ گئ اور میں پهر ہار گیا.اس دن تو میں اپنا وجود بهی ہار گیا تها.میں نے زینب کو رلانے کی بڑی کوشش کی،میں نے اس سے کہا "تمهارے ساتھ ظلم ہوا ہے تمهاری گڑیا رو رہی ہے.تمهاری ساری چوڑیاں ٹوٹ گئ ہیں،تمهارے سارے کهلونے کوئ چرا لے گیا ہے.تمهارے باپ کی بانہیں تمهارے لیے اب بهی کهلی ہیں تمهاری ماں کی آنکھوں کا دریا سوکھ گیا ہے"

لیکن وہ خاموشی سے مجهے دیکهتی رہی میں کانپ گیا مظلوم اگر خاموش رہ جائے تو پهر اسرافیل آتا ہےاور پهر کچھ بهی نہیں بچتانہ زمین نہ اس کے باسی.مجهے نہیں معلوم میرا دکھ کیا یے شاید میرا سب سے بڑا دکھ آگہی ہےاور آگہی کے دکھ روح کو زخمی کر دیتے ییں.کبهی کبھی مجهے لگتا ہے میں کسی کهنڈر کے ٹوٹے ہوئے مینار کی طرح ہوں.مجهے کچھ یاد سا پڑتا ہے کبهی میں زندہ تها کیسا عجیب دور ہے یہاں صرف حماقت کے زور پر زندہ رہا جاتا ہے احتیاج سوچ کا انداز بهی بدل دیتی ہےسورج کو اگر رات کی حرمت کا خیال نہ ہوتا تو وہ دن بهر سوئ رہتی اور اداسی شب کی پتلیوں میں رقص کرتی رہتی.میں بهی انصاف دلانا چاہتا تها اسے وہ مجهے دیکهتی رہتی ہے ایسے جیسے اگر میں نے اس کے لیے نہ لکها اس کے انصاف میں حصہ نہ ڈال تو وہ اپنی ماں کی گود سے نیچے نہیں اترے گی،جس معاشرے میں زنیب کو تحفظ نہ ملے ایسے معاشرے ایسی قومیں کتبے پر لکهی ہوئ عمر کی طرح بے منعی ہو جایا کرتی ییں.اخلاق، اقدار،زوال کے زرد پتوں کی پازیب پہنے سانسوں کی تصحیک کرنے لگتی ہیں.یکسانیت سے اکتائ خوشی اور بن دریافت ہوئے جزیرے کا دکھ کوئ نہیں سمجھ سکتا.انسانیت یہ ہے کوئ ڈوب رہا ہو تو تم اس کے لیے ساحل بن جاو اور وہ سفاکیت اور بربریت کے سمندر میں ڈوب گئ مگر میں ساحل نہ بن سکا کبهی کبهی مجهے لگتا ہے زندگی شہر کی بے چراغ گلیوں میں کہیں گم ہو گئ ہے.

کبهی کبهی میں سوچتا ہوں زینب ترے بعد اس شہر کا کیا حال ہو گیا ہے شریف النفس یہاں سے ہجرت کرنے لگے ہیں. بچے شام ہونے سے پہلے ہی ماں کی گود میں جا بیٹهتے ہیں.اب یہ سہمے ہوئے پهرتے ہیں شرارت بهی نہیں کرتے.زرا سی بات پر رونا شروع کر دیتے ہیں. اپنے بابا سے کهلونوں کی ضد بهی نہیں کرتے.سورج زوال کی طرف پلٹ پڑتا ہے مگر اجالا نہیں ہوتا.خوف کی بارش نے سارا شہر چپ کے کیچڑ سے بهر دیا ہے.گلیاں اور راستے آہٹوں کے خوف سے سہمے ہوئے ہیں.لوگ چهوٹی چهوٹی قبروں کو دیکھ کر رونا شروع کر دیتے ہیں. خواب ہجرت کر گئے ہیں ماں باپ کی نیندیں اب ماضی کا قصہ بن گئ ہیں. بچے ماں کی جهولیوں سے اترتے ہوئے سہم جاتے ہیں. ان کی آنکهوں میں خوف کے سائے تیرنے لگے ہیں..

ہم درندے کیسے بنے....؟

اس نے اپنے پاس بیٹھی آنکهوں میں آنسوؤں لیے اپنی بیوی کی طرف دیکها..


ہم قرآن رکهتے ہوئے بهی جاہل کیسے ہوئے....؟

 

ہم رحمت اللعالمین کے امتی ہوتے ہوئے بهی ظالم کیسے بنے....؟


ہم اخلاقی زوال کا شکار کیوں ہوئے....؟

ہمارا رازق کہاں گیا رزق کیا ہے...؟ اس نے اپنے سامنے رکهے کهانے کی طرف دیکها....

ہر وہ چیز جو پستی سے بلندی کی طرف لے جائے رزق ہے..اور آج ہم سب بلندی سے پستی کی طرف گر رہے ہیں. 

زلت ہمارا مقدر کیوں ٹهری،ہمارا معاشرہ جنونی کیوں ہوا،ہماری پہچان کیا ہے.؟

ہم عجیب دور میں رہ رہے ہیں. جہاں آپ کو شناخت کرنے والا بائیومیٹرک خوداپنے آپ سے ناآشنا ہے..

زینب جیسی گڑیابربریت اور درندگی کا نشانہ کیسے بنی...؟

ہم عزت اور سکون کی نعمت سے کیسے محروم ہوئے...؟

ہم انسان سے جونک کیسے بنے ...؟

ہم قوم سے ہجوم کیوں ہوئے...؟

ہم مخلوق ہو کر بهی خالق سے دور ہو گئے.

وہ سوالوں کی پوٹلی لیے چارپائی سے نیچے اترا.

کهانا تو کهاتے جائیں.. اس کے ساتھ آصفہ  بهی اٹهی..

نہیں مجهے بهوک نہیں ہے دروازہ اچهے سے بند کر لینا اور بچیوں کو بالکل باہر نہ جانے دینا میں دکان پہ جا رہا ہوں شام تک آتا ہوں وہ دکان پہ پہنچا ہی تها کہ اسے عارف چچا آتے دکهائ دیے.

عارف چچا اسے دیکھ کر پہلے مسکرائے اور پهر اداس ہو گئے..وہ مٹی کے برتن بناتے تهے اور اکثر اخباروں وغیرہ کے لیے لکهتے بهی تهے..وہ تخلیق کار تهے

چچا آج تم پہلے مجهے دیکھ کر ہنسے اور پهر اداس ہو گئے ہو کیوں خیریت تو ہے....؟


میں تمہیں دیکھ کر ہنسا اس لیے تها کہ میں نے ایک عرصے بعد ایک حساس انسان دیکها ہے کسی ملک کا حقیقی اثاثہ اور سرمایہ اس کے حساس انسان ہی ہوتے ہیں. اور رویا اس لیے ہوں کہ تم بهی میری طرح اس سفاک، ظالم، جنونی،مادہ پرست اور بے حس معاشرے  میں آگہی کا دکھ لیے جی رہے ہو.اس معاشرے کو تعلیم کی نہیں تربیت کی ضرورت ہے.تربیت کے بغیر محض تعلیم سے انسان دعوے کرنے لگ جاتا ہے اور دعوے کرنے سے برکت ختم ہو جاتی ہے.انسان کا عمل تعلیم سے نہیں تربیت سے ہوتا ہے.

چچا نے ایک نظر اس کی طرف دیکها اور پهر اس کی  جهونپڑی نما دکان کو دیکها.ہم دکانداروں اور تخلیق کاروں کا سرمایہ ہی کیا ہوتا ہے..

خالی الماریاں اور پهٹےپرانے کپڑے.لوگ تقریبات میں لے جاتے ہیں .عزت بهی کرتے ہیں،اور واہ واہ بهی کرتے ہیں مگر دو وقت کی روٹی بهی مشکل سے پوری ہوتی ہے.بعض دفعہ توفاقوں تک نوبت آ جاتی ہے

ہم لفظوں اور محبتوں کے سوداگر ہیں مانگ بهی نہیں سکتے.جهولی بهی نہیں پهیلاسکتے پهر اس  کی آنکهوں میں آنسو تیرنے لگےیہ دنیا ایک پتلی گهر ہے جمشید جس میں ہر پتلی کو کوئ نہ کوئ کردار ادا کرنا پڑتا ہے اس دنیا میں اپنے جیون سے زیادہ ہجر کاٹنا پڑتا ہے.

اچها تو چچا یہ بتاو ہم  زوال کا شکار کیسے ہوئے..؟

چچا نے وقت دیکهنے کے لیے اپنی جیب سے ایک ٹوٹی ہوئ گهڑی نکالی..

اور پهر ٹائم دیکهتے ہوئے ایک نظر اخبار میں سر دیے جمشید کو دیکها.

مصروف ہو گئے ہو اپنے سوال کا جواب نہیں سنو گے.

مجهے میرے سوال کا جواب مل گیا ہے .

ہاں چچا عارف مجهے میرے سوال کا جواب مل گیا ہے ہم زوال کا شکار کیسے ہوئے ہم شدت اور جنونی کیسے بنے.جس ملک اور معاشرے میں تخلیق کار ٹوٹی گهڑیاں لیے پهرتے ہوں..ایسی قومیں اور معاشرے وقت برمودا ٹرائ اینگل میں گم ہو جایا کرتے ہیں. .

وہ اٹھ کر دکان بند کرتے ہوئے بولا.

جہاں اسپتالوں کی ایمرجینسز اور پهانسی گهاٹ آباد ہوں. تابوت بنانے والوں کی چاندی ہو وہاں بوریوں کا کفن دیا جاتا ہے.پھر"زینب" کی گڑیاں اداس رہتی ہے.جہاں انصاف کی ٹانگیں کاٹ دی جائیں وہاں ہر دوسرے دن کوئ فریال کوڑے سے ملتی ہے.ہو سکتا ہے چچا نیا آنے والا سال امن کا سال ہو. امید اچهی رکهنی چاہیے..امید پر دنیا قائم ہے چچا پر جو اس سال نے چهین لیا وہ کبهی لوٹائے گا نہیں. چچا تمہیں آنے والا سال مبارک ہو میں کشمیر جا رہا ہوں اپنے گاؤں امن والے گاؤں جہاں آنے والا سال امن و سکون سے گزروں  گا..

تمہیں سکون مبارک ہو جمشید  وہ اپنے میلے ہاتهوں سے آنسو صاف کرتے ہوئے بولےاور مسکرا کر جمشید کی طرف دیکها..

خدا حافظ چچا. 

عمر ناکام کا اک اور برس بیت گیا.

اور وہی میں ہوں وہی سلسلہ شام و سحر.

ایک لمحہ بهی مجهے غم سے فراغت نہ ملی.

ایک لمحہ بهی مسرت کا میسر نہ ہوا.

کچھ نئے غم،نئے دکھ،نئے

آہیں نئے ستم

اور اس گزرے ہوئے سال کا صلا کیا ہے.

مجھ کو اک زندگی نو کی خبر دیتی ہے 

ہر نئے سال کی رخشندہ و تابندہ سحر...

ختم شد

Comments

Popular posts from this blog

Women's day 2023

horror story

Article 2020.